مزاج کا انسان کی شخصیت بنانے یا بگاڑنے میں بہت عمل دخل ہوتا ہے، یا یوں کہیں مزاج ہی ہوتا ہے جو شخصیت بناتا ہے۔ انسانوں کی طرح سیاسی جماعتوں کے بھی مختلف مزاج ہوتے ہیں۔ عموماََ رہنماؤں اور کارکنوں کا مزاج ایک سا ہی ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی رہنما ردِ عمل دیتے ہیں کارکن بھی اسی مزاج کے تحت ردِ عمل دیتے ہیں۔ اگر رہنما کا مزاج دھیما ہو تو کارکن کا مزاج بھی مصالحت پسند ہی رہتا ہے اور اگر رہنما جارحانہ ہو تو کارکن بھی جارحانہ رویّہ رکھتا ہے۔ اسی طرح اگر رہنما اپنا مزاج تبدیل کریں تو کارکن کو اس مزاج کے تحت ایڈ جسٹ ہونے میں کافی وقت لگتا ہے اور کارکن کو اس مزاج میں ڈھالنے کے لئے قائدانہ صلاحیت ہونا نہایت ضروری ہے۔ قائد کہلوانے کے لئے تو ہر شخص تیار کھڑا ہے، مگر قائد کی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ہر شخص کی جان جاتی ہے۔ بدقسمتی سے تبھی آج تک پاکستان میں بھٹو کے سوا کوئی قائد بن ہی نہیں سکا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) میں یوں تو دو مزاج پائے جاتے ہیں، ایک مکمل طور پر جی۔ حضوری والا جبکہ دوسرے مزاج میں ہلکی ہلکی سی بغاوت موجود ہے۔ جی حضوری والا مزاج شہباز شریف کا ہے۔ جو ہر صورت مصالحت پر چلنے کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔ چوہدری نثار علی خان بھی اسی مزاج کا حصہ رہے ہیں۔ دوسرا مزاج میاں محمد نواز شریف کا ہے، جو کہ خود بغاوت کرنا جانتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ ان کے ساتھ مستقل مزاج نہ ہونے کا مسئلہ درپیش ہے۔ میاں صاحب کی ایک کمزوری یہ بھی ہے کہ دباؤ برداشت نہیں کر پاتے۔ بوکھلاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن خود کو پرسکون نہیں رکھ پاتے۔ اس وجہ سے قدرے کنفیوژ بھی رہتے ہیں۔ جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو چوہدری نثار کا بیانیہ اچھا لگتا ہے لیکن جونہی اقتدار سے باہر آتے ہیں انہیں پرویز رشید اچھے لگنے لگتے ہیں۔ یعنی کہ بنیادی طور پر ان دو مزاجوں میں فرق یہ ہے کہ پہلا مزاج بغاوت کرنا ہی نہیں چاہتا جبکہ دوسرا کرنا چاہتا ہے لیکن اتنا دل گردہ ہمراہ نہیں رکھتا۔ اس کے علاوہ ایک اور مزاج بھی ہے جو سخت مزاحمت کا علمبردار ہے، لیکن اس مزاج کی اتنی کوئی وقعت مسلم لیگ (ن) میں رہی نہیں ہے لیکن اس مزاج کو پچھلے کچھ عرصے میں پذیرائی ملی ہے۔ اس مزاج نے ایک اہم خاتون کو اپنی شاگردی میں بھی لیا ہے۔ مزاحمت اور مصالحت پسند مزاج کا کنفیوژ مزاج کے ساتھ رویہ بھی قدرے مختلف ہے۔ مصالحت پسند مزاج کنفیوز مزاج کے آگے ضد کرتا ہے اور ضد منوا بھی لیتا ہے، جبکہ مزاحمتی مزاج ہلکے سے لہجے میں نصیحت کرتا ہے اور ساتھ ہی سر جھکا بھی لیتا ہے۔
یہ مزاج ہے پرویز رشید کا، اس مزاج کے ناکام ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ اسے کسی طاقتوع شخص کی حمایت حاصل نہیں رہی ہے۔ لیکن جب سے چوہدری نثار علی خان نے بغاوت کا علم لہرایا ہے، تو مریم نواز صاحبہ جو کہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھیں کہ کس مزاج کے ساتھ جانا چاہئے، ان کے لئے بغاوت اور تند و تیز بیانات نے راستہ آسان کر دیا۔ مریم نواز مستقل طور پر اب پرویز رشید کا بیانیہ لے کر چلنے پر رضا مند ہیں۔
محمد نواز شریف اس دفعہ بھی کسی ڈیل کی طرف یقیناََ جھک جاتے اگر ان کے ساتھ مریم نواز نہ ہوتیں۔ یہ مریم نواز ہی ہیں جو مسلسل میاں نواز شریف کو یہاں تک لے آئی ہیں۔ فیصلے کے بعد نواز شریف اپنی سیاسی شکست تسلیم کر کے اور جماعت کی کمان چھوٹے بھائی کے ہاتھوں سونپ کر بیرونِ ملک پرواز کرنے پر راضی تھے۔ لیکن یہ مریم ہی تھیں جو وہ سڑکوں پر نکل آئے۔ ورنہ تاریخ گواہ ہے کہ نواز شریف میں مزاحمتی وٹا منز کی خاصی کمی ہے۔
مشرف دور میں جب نواز شریف کے پاس بھٹو بننے کا موقع موجود تھا انہوں نے وہ موقع ضائع کیا اور پہلی فلائٹ اور ڈیل میسر آتے ہی جدہ پرواز کر گئے۔ نواز شریف سخت حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، کہاں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیاں۔ مریم ہی کے مشورے سے وہ یہاں پہنچے ہیں۔ اب حالات قدرے مختلف ہیں۔ مریم اپنے باپ کو اس راستے پر لے آئی ہیں جہاں نواز شریف آنے کے خواب تو دیکھا کرتے تھے لیکن آنے کی ہمت جٹا نہیں پاتے تھے۔ آج کے سیاسی ہنگام میں اگر مریم نہ ہوتیں تو منظر قدرے مختلف ہوتا۔ میاں صاحب اس وقت ڈیل کر کے بیرونِ ملک مقیم ہو چکے ہوتے۔
یہ مزاحمتی مزاج نواز شریف کو ذوالفقار علی بھٹو اور مریم نواز کو بےنظیر بھٹو تعبیر کرنے کی کوششوں میں ہے لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ بھٹو کے جیل جانے کے بعد پیچھے بھٹو کا نام زندہ رکھنے والوں کا ہونا ضروری ہے۔ ورنہ ہم برصغیر کے لوگوں کا حافظہ ویسے ہی بہت کمزور ہے۔ ہم بہت جلد بھول جایا کرتے ہیں۔ نواز شریف کے پیچھے اگر ان کی اس مزاحمت کے نظرئیے کو چلانے والا موجود نہیں ہو گا تو انہیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
شہباز شریف تو واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ کسی مزاحمت کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ اس وقت مصالحت اور ترقی کے بیانئیے کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ اگر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا تو وفاق تو ان کے ہاتھ سے نکل ہی گیا ہے پنجاب بھی نکل جائے گا۔ ان کی تمام تر توجہ اس وقت پنجاب کا تخت بچانے پر مرکوز ہے۔ آنے والے وقت میں بھی کسی مزاحمت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ اس کا سب سے واضح ثبوت لاہور کی ریلی ہے۔ شہباز شریف اگر کسی مزاحمت کے موڈ میں ہوتے تو یقیناََ اس ریلی کو ائیر پورٹ تک لے کر جاتے لیکن وہ پہلے ہی کچھ لوگوں کو یقین دہانی کروا چکے تھے کہ آپ پریشان مت ہوں ہم تو بس ایسے ہی جا رہے ہیں، آپ کے ساتھ لڑنے کا ہمارا کوئی موڈ نہیں ہے۔ اور حال ہی میں مریم نواز کے میڈیا سیل کو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔ اس لئے مزاحمتی مزاج کو فوری طور پر کوئی راستہ تلاش کرنا ہو گا ورنہ ان کے بیانیہ معدوم ہوتا جائے گا۔
یہ تو ہوئی رہنماؤں کی بات، مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی اکثریت مڈل کلاس اور بزنس کلاس میں ہے۔ جو صرف ووٹ ڈالنے اور ٹی۔ وی۔ دیکھنے کی حد تک ہی خود کو محدود رکھنا مناسب سمجھتی ہے۔ یہ طبقہ عموماََ سوشل میڈیا سے پر ے رہتا ہے۔ اس لئے اس کا تاثر ایک مصلحت پسند اور صلح جو کارکن کا ہے۔ یہ طبقہ عملی طور پر سیاست میں کردار ادا کرنے کو فضول جانتا ہے اور اپنے کاروبار و نوکری ضروری سمجھتا ہے۔ اس طبقے کو سڑک تک کھینچ کے لانے کے لئے سخت قائدانہ صلاحیتیں درکار ہوں گی جو کہ ابھی تک مسلم لیگ (ن) میں نظر نہیں آتیں۔ وہ کارکن جو سڑکوں پر آتے ہیں وہ مزاحمت اور وہ چنگاری اپنے مزاج میں نہیں رکھتے اور اگر ان کارکنوں کو مزاحمت کی طرف موڑنا مقصود ہوتا تو ریلی میں کارکنوں کو سخت مزاحمت کی طرف موڑا جاتا، جو کم از کم ان کے مزاج کو تبدیل کرنے کے لئے پہلا قدم ثابت ہوتی۔
سیاست بنیادی طور پر نام ہی وقت کے استعمال کا ہے۔ اچھا سیاستدان وہی ہوتا ہے جو وقت کا انتخاب کرنا جانتا ہو۔ تحریک انصاف کا ہاتھ اس حوالے سے خاص کمزور ہے۔ چیئر مین عمران خان کے حالیہ بیانات اور سیاست دیکھ کر تو نجانے کیوں محسوس ہو رہا ہے کہ عمران خان روایتی سیاست کی طرف تو آگئے ہیں لیکن سیاست کی بنیادی چالیں نہیں سیکھ سکے۔ عمران خان کے سیاسی بلنڈرز کچھ نئے نہیں ہیں۔ جن میں سے ان کے یو ٹرنز سب سے مشہور ہیں۔ ان کا مزاج کنفیوژن کا شکا رہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی شہرت کے آغاز پر اصولی سیاست کا نعرہ لگایا تھا اور آج جب انہیں سمجھ آیا ہے کہ اصولوں کے ساتھ کچھ مصالحت کو بھی ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے اور وہ اپنے بیانئیے کو تبدیل تو کر چکے ہیں۔ مگر خود اس میں ایڈجسٹ نہیں ہو پائے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان کو اپنا مزاج بہت زیادہ عزیز ہے، یہ ایک نفسیاتی چیز ہے۔ ایک شخص جس نے گھر والوں سے دور تمام عمر آزاد رہ کر گزاری ہو، وہ عموماََ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ یا اگر صاف الفاظ میں کہوں تو یہ کہ عمران خان خاصے لاپرواہ بھی ہیں۔ اس کا ایک واضح ثبوت یہ بھی ہے کہ عمران اکثر گھر آئے مہمانوں کو چائے تک نہیں پوچھتے یعنی کے فورمیلیٹیز کے کسی صورت حامی نہیں ہیں۔ جو دل میں ہوتا ہے وہ بلاتوقف زبان پر لے آتے ہیں۔ پارلیمنٹ پر لعنت بھیجنا اور مخالف جماعت کے کارکنوں کو گدھا کہنا اس امر کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگر کسی کام پر دل رضامند ہو تو کسی کو خاطر میں نہیں لاتے بلکہ وہ کام کر کے ہی رہتے ہیں، اس بات سے بالکل لاپرواہ ہو کے کہ اس کے نقصانات ہوں گے۔ اسی مزاج کی وجہ سے وہ یہ نہیں سیکھ پائے کہ انتخابات قریب آتے ہی آپ ہمیشہ سے زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں، اس دنوں میں آپ غلطیوں سے گریز کرتے ہیں نہ کہ ان میں تابڑ توڑ اضافہ کر دیتے ہیں۔
اس میں قصور عمران خان کا نہیں ہے، اس مزاج اور پس منظر کا کوئی بھی شخص ہوتا تو اس کا مزاج یقیناََ ایسا ہوتا۔ عمران خان اس مزاج کے ساتھ یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس کی وجہ ان کا ایک کھلاڑی ہونا ہے۔ عمران خان کے مستقل مزاج ہونے کی وجہ سے ہی عمران خان نے اتنا سفر طے کر لیا ہے۔ ان حالات سے نکلنے کے لئے عمران خان نورتنوں کی ضرورت ہے۔ وہ نورتن جو اکبر کے ہاں تھے۔ جو عمران خان کو یہ بتا سکیں کہ کب کہاں کیا بولنا ہے، کس کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے، کس وقت سختی کرنی ہے، کس وقت اپنا مزاج ٹھہرا ہوا رکھنا ہے اس عمر میں عمران خان بذاتِ خود تو یہ سب کرنے اور سیکھنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
تحریک انصاف کا کارکن بنیادی طور پر وہ مڈل کلاس اور نوجوان طبقہ ہے جو اس وقت حالات سے سخت مایوس ہے اور اسے واحد امید عمران خان میں نظر آ رہی ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے، جس کا تکیہ کلام، “سب ہی چور لٹیرے ہیں” ہے۔ یہ طبقہ معاشرے میں اپنا حصہ اور انقلاب چاہتا ہے اور فوراََ چاہتا ہے کیوں کہ یہ اندر سے مکمل طور پر روایتی سیاستدانوں سے بیزار ہے۔ یہ طبقہ نہایت جارحانہ مزاج بھی رکھتا ہے۔ اپنے چئیرمین کی طرح مصلحت کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتا۔
ہر معاشرے میں صحافتی طبقہ تقسیم ہوتا ہے، ایک طبقہ ایک جماعت کا حامی ہوتا ہے جبکہ دوسرا طبقہ دوسری جماعت کا حامی ہوتا ہے۔ سیاستدان کو ان دونوں طبقوں کے درمیان توازن بنا کر چلنا ہوتا ہے، ایک اچھا سیاستدان تنقید برداشت کرتا ہے اور ہمیشہ صحافیوں کے ساتھ اچھے مراسم رکھتا ہے۔ کیوں کہ اسے علم ہوتا ہے کہ سیاستدان کو بنانے میں اور گرانے میں میڈیا کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن عمران خان یہ فرق نہیں سمجھتے۔ صحافیوں کو لفافوں کے لقب دینے کا وہ سلسلہ جو انہوں نے دھرنوں سے شروع کیا وہ آج تک جاری ہے اور بالکل یہ ہی مزاج ان کے کارکنان کا بھی ہے۔
سوشل میڈیا پر یہ لوگ بغیر کسی تامل کے تنقید پر غلیظ گالیوں پر اتر آتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ جب آپ کسی کو گالی دیں گے تو خواہ اگلا شخص چاہے کتنا ہی غیر جانبدار کیوں نہ ہو اس کے دل میں ایک خلیج تو اس وجہ سے پیدا ہو ہی جائے گی۔ اگر آپ تنقید برداشت نہیں کر سکتے تو مقابل صحافی تضحیک کیسے برداشت کرے گا۔ یہ انسانی نفسیات کی حقیقت ہے۔ ان کارکنان کو سمجھنا ہو گا کہ عمران خان ابھی تو اپوزیشن میں رہے ہیں، تو ان پر اس قسم کی تنقید نہیں ہوئی۔ جب حکومت میں آئیں گے تو اس تنقید میں بےبہا اضافہ ہو گا۔ اس تنقید کو کس طرح ہینڈل کریں گے؟ اس نوجوان طبقے کی صحیح یوٹیلائزیشن سیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ نوجوان ایک وقت میں آگ بھی اور پانی بھی۔ اس کو آپ کیا بنانا چاہتے ہیں اس کا فیصلہ آپ کے اپنے ہاتھ میں ہے۔
رہنما اپنے پیروکاروں کے لئے باپ کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ کون سا باپ ہو گا جو اولاد کو اس کے حقوق تو بتاتا ہے لیکن اسے اس کے فرائض نہیں بتاتا۔ حقوق کا مطالبہ تب ہی کیا جا سکتا ہے جب فرائض پورے کئے ہوں۔ ان کارکنان کی تربیت سیاسی قائدین کے ذمہ ہوتی ہے، وقت کی اہم ضرورت ہے کہ سیاسی قائدین یہ سمجھ لیں۔ ورنہ مخالفین تو جو نقصان پہنچائیں گے پہنچائیں گے ہی یہ کارکن ہی انہیں لے ڈوبیں گے۔