کولمبیا کے شہر بوگوٹا میں پیدا ہوئے۔عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا۔ ممتاز اخباروں اور رسالوں میں فرائض سر انجام دیئے۔1950 میں ان کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا،جس نے انہیں لافانی شہرت عطا کی۔ان کی کہانیاں معاصر زندگی کی انتہائی گہرے اور حساس مشاہدے کی دین تھیں۔ اس دور پر آشوب میں کولمبیا تشدد کی لہر کا شکار تھا۔ ’’تالیز‘‘ نے کئی سول جنگوں اور آمریتوں کا دور دیکھا۔ جس میں وہ عہد بغاوت بھی شامل تھا جس نے گرینڈ کولمبیا کو ۔۔۔کولمبیا، وینزویلا اور ایکواڈور میں تقسیم کر دیا تھا۔’’تالیز ‘‘کولمبیا کی پارلیمان کا حصہ اور اقوام متحدہ میں کولمبیاکے سفیر بھی رہے۔میں چمڑے کی پٹی پر استرا تیز کرنے میں مصروف تھا کہ وہ خاموشی سے دکان میں داخل ہوا اور آئینے کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اپنے گاہک کا چہرہ پہچانتے ہی مجھ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ مگر وہ میری حالت سے بے خبر رہا۔ اپنا خوف چھپانے کے لیے میں سر جھکا کر استرے کو مزید تیزی سے چمڑے پر رگڑنے لگا۔ چند لمحوں بعد میں نے استرے کی دھار کو اپنے انگوٹھے کی کھال پر رکھ کر محسوس کیا اور چھت سے لٹکے بلب کی روشنی میں اس کی چمک دیکھی۔ اس دوران وہ اپنی کمر سے لٹکی گولیوں کی پیٹی اور پستول اتار کر دیوار پر لگے کھونٹے سے ٹانگ چکا تھا۔ ’’تمہارا علاقہ جہنم کی طرح گرم ہے‘‘ اس نے میری طرف گھوم کر کہا۔’’ذرا اچھی سی شیو بنا یہ کہہ کر اس نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی اور آنکھیں موند لیں۔”>میں نے اندازہ لگایا کہ اس نے کم از کم چار دن سے شیو نہیں کی تھی۔ گزشتہ کئی دنوں سے وہ مستقل ہمارے جوانوں کی سرکوبی میں مصروف تھا۔ اسے دارالخلافے سے اسی مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا۔ میں نے صابن کے ٹکڑے گرم پانی میں ڈال کر جھاگ بنانی شروع کر دی کچھ ہی دیر میں جھاگ کے بلبلے پیالے کی سطح تک ابھر آئے۔’’مرکزی قیادت کے دوسرے افسروں کے چہروں پر بھی یوں ہی داڑھیاں اْگ آئی ہوں گی؟‘‘ میں نے کچھ کہنے کی خاطر کہا، اور دائیں ہاتھ سے مستقل جھاگ گاڑھی کرتا رہا’’اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟‘‘ اس نے آنکھیں کھول کر لاپروائی سے جواب دیا۔’ہم نے انہیں تو نہیں چھوڑا۔ چْن چْن کر مارا ہے۔ حالانکہ مقامی ہونے کے باعث وہ یہاں کے جنگلوں اور پہاڑی راستوں سے زیادہ واقف ہیں۔۔۔ ہمارے لیے یہ جگہ اجنبی ہے۔ مگر پھر بھی۔۔۔ جلد ہی سب کو ختم کر دیں گے‘‘’اب تک کتنے مارے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا’چودہ۔۔۔ ہمیں گھنے جنگلوں میں جانا پڑا۔۔۔ بہت دشوار گزار۔۔۔ مگر کوئی بات نہیں۔ کب تک چھپے رہیں گے۔۔۔ سب کو ختم کر دیں گے‘’’گرفتار بھی تو کیے ہیں؟‘‘’جو ہتھیار ڈال دے اسے شہر کے چوک پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ پھر جو اس کا مقدر‘اس نے جھاگ تیار دیکھ کر چہرہ اوپر اٹھا دیا۔ میں نے اب تک اس کے سینے پر تولیہ نہیں رکھا تھا۔ الماری سے تولیہ نکالتے ہوئے میرے ہاتھ دوبارہ لرزنے لگے۔ اس کی گردن کے پیچھے والے حصے سے تولیہ باندھتے ہوئے مجھے یوں لگا جیسے وہ میری کپکپاہٹ محسوس کر چکا ہے مگر اس کے چہرے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں ہوا۔ وہ مسلسل بولتا رہا۔’’تمہارے شہر والوں نے تو کل کا منظر دیکھ ہی لیا ہے۔۔۔ کیسا تھا؟ سبق سیکھا؟‘’’ہاں‘‘ میں نے تولیے کی آخری گرہ لگائی اور نفرت سے منہ پھیر لیا۔ وہ سمجھ رہا تھا میں سرکاری دستوں کا ہمدرد ہوں۔’ہماری طرف سے تو سب کو دیکھنے کی اجازت تھی۔ پتا نہیں لوگوں کو تماشا پسند آیا یا نہیں۔۔۔ عبرت ہوئی؟‘’’ہاں‘‘ میں نے دوبارہ کہا، اور مٹھیاں بھینچ لیں۔اس نے کرسی کی پشت سے گردن لگا کر ایک بار پھر آنکھیں بند کر لیں۔کل جب وہ مجھے پہلی مرتبہ نظر آیا تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ کبھی وہ میرے اس قدر قریب آ جائے گا۔ کل اس کے چہرے پر نگاہ نہیں ٹھہر رہی تھی وہ بہت مصروف تھا۔ اس نے ہمارے علاقے کے چار باغیوں کو ننگا کر کے پھانسی دی تھی، اور جب ان کے مردہ بدن ہوا میں جھولنے لگے تھے تو اس نے اپنے سپاہیوں کو ان کے مخصوص حصوں میں گولیوں سے سوراخ کرنے کا حکم دیا تھا۔ وہ مرکز سے منحرف ہو جانے والوں کو نت نئی اذیتیں دینے کے لیے مشہور تھا۔ اس کا نام ٹوریس تھا۔۔۔ کیپٹن ٹوریس۔۔۔ اس نے ہمارے شہر کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی کمر توڑ دی تھی۔ میں نے اس کا چہرہ غور سے دیکھا۔ اس کے نقوش برے نہیں تھے اور اس وقت یہ اندازہ لگانا ناممکن نہیں تھا کہ وہ اس قدر سخت طبیعت کا مالک ہے۔ میں نے اس کے چہرے پر جھاگ کی پہلی تہہ جمانی شروع کی۔ وہ بند آنکھوں کے ساتھ بولتا رہا ’’میں چاہوں تو اس لمحے گہری نیند سو سکتا ہوں‘‘ مگر مجھے یہاں سے جا کر ضروری کام کرنا ہے‘’’پھانسیاں دینی ہیں؟‘‘ میں نے اپنے لہجے کی تلخی دباتے ہوئے کہا۔’’اسی طرح کی کوئی چیز۔ مگر اس مرتبہ عام تماشا نہیں ہو گا‘میں اس کی داڑھی کے بالوں کو جھاگ کی رگڑ سے نرم کرنے میں مصروف رہا۔ میرے ہاتھ ایک بار پھر لرزنے لگے تھے۔ لیکن جھاگ بنانے کے عمل میں ہاتھوں کی لرزش چھپانا آسان تھا۔ اس نے ذاتی طور پر مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ لیکن اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں اسے کبھی اپنا گاہک نہ بناتا۔ وہ ہمارے علاقے کی خود مختاری کے لیے جدوجہد کرنے والوں کا دشمن تھا۔ اس زاویے سے وہ ہم میں سے کسی کا خیر خواہ نہیں تھا اور پھر اسے میری دکان میں داخل ہوتے بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا۔ وہ پسند نہیں کریں گے کہ ہمارے دشمنوں کا سربراہ اتنے اطمینان سے میری خدمات حاصل کرے۔ مگر میں اس سلسلے میں مجبور تھا۔ یہ درست ہے کہ وہ ہمارے علاقے پر مرکزی حکومت کی بالادستی قائم کرنا چاہتا تھا اور یوں اس کا عمل ہم سب کے مفادات کے منافی تھا۔ لیکن میں مقامی باشندہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک خاندانی حجام بھی تھا۔
اس کی خاطر خواہ شیو کرنا میرے لیے پیشے کے آداب میں شامل تھا۔ میرے پاس وہ ایک گاہک کی حیثیت سے آیا تھا۔ اور اب میرا فرض تھا کہ میں اس کی اچھی شیو بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑوں۔ اس بات کا خیال رکھوں کہ اس کے مساموں سے خون نہ چھلکے۔ اس کے گالوں پر خراش نہ آئے۔ چار دن کے بڑھے ہوئے بالوں میں استرے کا پھسل جانا عام سی بات ہے۔ مگر میرے ہنر کا تقاضا تھا کہ میں اس مرحلے سے کامیاب گزروں۔ جب وہ میری دکان سے نکلے تو اس کا چہرہ صاف شفاف اور چمک رہا ہو۔ وہ اپنے ہاتھ کی پشت چہرے پر پھیرے تو اسے کہیں کھردرے پن کا احساس نہ ہو۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میں اندر سے باغیوں کا حمایتی تھا اور سرکاری دستوں کے ہاتھوں ان کی بربادی اور ہلاکت پر کْڑھتا تھا۔ مگر ایک باضمیر حجام کی حیثیت سے اپنے گاہکوں کی ضروریات کا خیال رکھنا میری مجبوری تھی۔ مجھے اپنے پیشے کی نزاکتوں کا علم تھا اور چار دن کی بڑھی ہوئی سخت اور خاردار شیو مجھے اپنی مہارت کے اظہار پر بطورِ خاص اکسا رہی تھی۔میں نے استرا کھول کر مضبوط ہاتھ میں تھاما اور اسے نہایت احتیاط سے کیپٹن ٹوریس کی دائیں قلم کے نیچے رکھ کر حرکت دی۔ استرا سو فیصد درست حالت میں تھا۔ ہلکی سی سرسراہٹ کے ساتھ میرے اوزار نے انتہائی خوبصورتی سے اپنے کام کا آغاز کیا۔ کیپٹن کی داڑھی کے بال گھنے اور خمدار تھے مگر استرے کی دھار بہت تیز تھی اور میری مہارت درجہ کمال کو چھوتی تھی۔ آہستہ آہستہ جھاگ کے نیچے سے کیپٹن کی صاف اور چکنی جلد ابھرنے لگی۔ استرا جھاگ کی ڈھیریوں میں بالوں کے گچھے لیے اپنے مخصوص انداز میں آگے بڑھتا رہا۔ وقفے وقفے سے میں استرے کو تولیے سے صاف کر کے اسے چمڑے کی پٹی پر رگڑتا تھا مجھے اپنے پیشے پر فخر ہے۔ یہ میرا فن ہے، اور اپنے فن کی باریکیوں کا خیال نہ رکھنا میرے نزدیک غیر اخلاقی بات ہے۔کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول کر اپنا ایک ہاتھ تولیے سے باہر نکالا اور اس جگہ کو چھْو کر دیکھا جہاں سے بال صاف ہو چکے تھے۔’’تمہارے پاس وقت ہو تو آ جانا۔ آج شام چھ بجے ہم اسکول کی عمارت میں مقدمہ چلائیں گے۔ تمہیں میں خصوصی اجازت دلوا دوں گا‘ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔’’وہی کل جیسا مقدمہ۔۔۔؟‘‘ میری آواز ڈوبنے لگی۔’’آج اس سے بہتر ہو گا‘’’آج کیا ہو گا؟‘‘ میں نے اپنے دل کو پسلیوں سے ٹکراتے محسوس کیا۔’’ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، مگر بہرحال آج زیادہ اچھا منظر ہو گا۔۔۔ مزا آئے گا‘میں نے استرا دوبارہ اس کے چہرے پر رکھ کر آہستہ سے پوچھا۔ ’’سب کو مارنے کا ارادہ ہے؟ہاں۔ سب کو‘‘ اس کے لہجے کا اطمینان حیران کن تھا۔میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر جھاگ خشک ہو رہا تھا۔ مجھے مزید تیزی سے کام کرنا تھا۔ میں نے آئینے سے دروازے سے باہر کا منظر دیکھا۔ دوپہر کا وقت تھا لوگ ہمیشہ کی طرح اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھے۔ سڑک پار کی دکان پر دو تین گاہک چیزوں کی قیمتیں دریافت کر رہے تھے۔ پھر میری نظر آئینے کے اوپر ٹنگی گھڑی پر گئی۔ میں نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا۔ استرے کی روانی قائم تھی۔ اب دوسری کنپٹی سے نیچے کے بال صاف ہو رہے تھے۔ بھوری، گھنی داڑھی تیزی سے ختم ہو رہی تھی شاید اس نے کبھی داڑھی رکھنے کے بارے میں نہیں سوچا۔ میرے خیال میں اْس کے چہرے پر داڑھی سجے گی۔ کبھی کبھی بازار میں ایسے شاعر اور پادری نظر آتے ہیں جو اپنے چہروں پر اْبھرنے والی لمبی اور پیچد ارداڑھیوں سے بالکل لاتعلق ہوتے ہیں، اور ان میں ایک عجیب طرح کی کشش پیدا ہو جاتی ہے۔ داڑھی میں کیپٹن کو پہچاننا مشکل ہو جائے گا۔ اور شاید یہ بات اس کے لیے سودمند بھی ہو۔ اسی طرح کے خیالوں میں میں اس کے گلے تک پہنچ گیا۔ یہاں مجھے اپنا ہاتھ انتہائی احتیاط سے چلانا تھا۔ گلے کے بال چہرے کے بقیہ حصوں سے نرم ہوتے ہیں مگر یہاں کی جلد بھی اسی نسبت سے نازک ہوتی ہے۔ اور پھر یہاں کے بال کہیں کہیں سے اچانک دائرہ دار گھومے ہوئے ہوتے ہیں۔ ذرا سی بے احتیاطی ایسی خراش لگا دیتی ہے جس سے سطح کی رگیں کھل جاتی ہیں، مساموں سے ہلکا ہلکا خون رسنے لگتا ہے۔ میرے جیسے پیشہ ور حجام کے لیے انتہائی شرمندگی کی بات ہے کہ کوئی گاہک زخم کا نشان لیے میری کرسی سے اٹھے۔۔۔ کوئی بھی گاہک۔۔۔ اور یہ تو دارالخلافہ سے آنے والا شخص ہے اس نے ہمارے کتنے آدمی ہلاک کر دیے ہیں؟ اور ابھی اور کتنے ستم ڈھائے گا؟ یہ ایک الگ بات ہے مجھے اپنے علاقے کے نوجوانوں سے ہمدردی ہے۔ میں انہیں حق بجانب سمجھتا ہوں وہ بے سر و سامانی کے باوجود انتہائی بے جگری میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے بالآخر وہ سب مار دیے جائیں گے اور انہیں ہلاک کرنے والوں کے نگران کیپٹن ٹوریس کی گردن اس وقت عین میرے استرے کے نیچے ہے مگر اس لمحے یہ میرے گاہک کی حیثیت سے مجھ پر اعتماد کیے بیٹھا ہے اسے بہرحال میری دکان سے اپنے ساتھیوں میں صحیح سلامت اور اعلیٰ درجے کی شیو کے ساتھ لوٹنا چاہیے۔داڑھی مکمل صاف ہو چکی تھی۔ جب وہ دکان میں داخل ہوا تھا تو عمر رسیدہ اور تھکا ماندہ لگ رہا تھا۔ مگر اب اس کے چہرے پر شگفتگی تھی۔ ماہرِ فن حجام کی دکان سے لوٹنے والے ہر گاہک کا حق ہے کہ وہ واپسی پر نوعمر اور تر و تازہ نظر آئے۔ اب وہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کچھ دیر پہلے اس کا چہرہ اس قدر مرجھایا ہوا تھا۔ میرے اوزار کی ہر حرکت اسے تازہ دم کرتی گئی تھی۔ میرے ہاتھ بہرحال ایک فن کار کے ہاتھ ہیں۔ اسی لیے مجھے شہر کا بہترین حجام مانا جاتا ہے۔گرمی کی شدت میں اچانک بہت اضافہ ہو گیا ہے میں پسینے میں شرابور ہو گیا ہوں مگر وہ کتنے اطمینان سے آنکھیں موندے بیٹھا ہے کس قدر مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ اسے یہ بات بھی مضطرب نہیں کر رہی کہ وہ شام کو ایک خونی کہانی کا مرکزی کردار بننے والا ہے۔
اور میں ہاتھ میں استرا لیے اپنی ہی دکان میں خوف سے لرز رہا ہوں۔ حالاں کہ مجھے تو بالکل نہیں ڈرنا چاہیے۔ میں تو ایک مثبت کام میں مصروف ہوں۔۔۔ یہاں ذرا زیادہ جھاگ۔۔۔ یہ ٹھوڑی کے نیچے الٹا استرا۔۔۔ شہ رگ کے ابھار پر مزید احتیاط۔۔۔ خون کی جھلک بھی نظر نہ آئے۔ میری ٹانگیں کیوں کانپ رہی ہیں؟ حا لانکہ اس وقت اسے ہلاک کرنا کس قدر آسان ہے اور یہ اس کا مستحق بھی ہے۔ میں اپنے شہر کے نوجوانوں سے ہمدردی رکھتا ہوں۔ لیکن میں بہرحال قاتل نہیں ہوں اور اگر میں اسے قتل بھی کر دوں تو اس سے مجموعی صورتِ حال پر کیا فرق پڑے گا؟ اس کی جگہ کوئی اور آ جائے گا۔ اسے بھی مار دیا جائے گا۔ تو مزید نئے چہرے اس کی جگہ سنبھال لیں گے۔ ہمیشہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ اس کا گلا کاٹنے کے لیے تو ہاتھ کی ہلکی سی جنبش کافی ہے۔ زپ! زپ! اور سب کچھ ختم۔ اسے تو اتنا موقع بھی نہیں ملے گا کہ مجھے حیران آنکھوں سے دیکھ لے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں اور یہ اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے گا۔ لیکن میں اس قدر کانپ کیوں رہا ہوں؟ میرا تو ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے ہر چند کہ یہ نہایت آسان ہے۔ اس کی گردن سے خون کا فوراہ پھوٹے گا۔ سب سے پہلے تو تولیہ سرخ ہو گا پھر کرسی بھیگے گی۔ میرے ہاتھوں پر بھی چھینٹے پڑیں گے۔ میں دوڑ کر دروازہ بند کروں گا۔ مگر خون کی دھار فرش پر بہتی جائے گی یہاں تک کہ کیپٹن کا لہو دروازے کے نیچے سے نکل کر باہر سڑک پر قطرہ قطرہ ٹپکنے لگے گا۔ استرے کی دھار بہت تیز ہے۔ اسے کچھ بھی محسوس نہیں ہو گا۔ اگر یہ باغیوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اسے بہت اذیت پہنچائیں گے۔ یہ طریقہ تو نسبتاً بہت آرام دہ ہے۔ زپ! زپ! اور سب کچھ ختم۔ اتنی جلدی کہ آدمی کو کوئی پریشان کن خیال بھی نہیں آ سکتا۔ گرم خون کی پھوار روکے نہیں رکے گی۔ مگر میں لاش کا کیا کروں گا؟ اصل مسئلہ تو ٹھوس بدن کا ہوتا ہے اسے یہیں چھوڑ کر میں دکان بند کر کے بھاگ جاں گا۔۔۔ کہیں دور ویرانوں میں دارالحکومت کے دستے میرا تعاقب کریں گے۔ بالآخر وہ مجھے چاروں جانب سے گھیر لیں گے۔ ’’کیپٹن ٹوریس کا قاتل۔۔۔ شہر کا حجام۔۔۔ وہ اس کی دکان پر شیو کرانے گیا تھا۔ ہاں۔۔۔ ظالم نے اپنے گاہک کی گردن پر استرا پھیر دیا۔۔۔ بزدل! دھوکے بااغیوں کے گروہ میں دوسری طرح کی باتیں ہوں گی ’’مظلوموں کا حمایتی۔ ہم سب کا حساب چکا دیا۔ ہماری آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں گی۔ آزادی کا متوالا! حریت پسند! اس کا نام سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ حجام تھا۔ مگر اس کے دل میں قوم کا درد تھا۔ عظیم انسان‘تاریخ میں زندہ جاوید ہونے کے لیے مجھے زیادہ جدوجہد بھی نہیں کرنی پڑے گی۔ استرے کی دھار پر میرا مقدر چمک رہا ہے۔ ذرا سا دبا ہی ڈالنا ہے۔ کیپٹن کی کھال ریشم کی طرح کھل جائے گی۔ ربڑ کی طرح۔۔۔ روئی کی طرح۔۔۔ انسانی جلد سے نازک کوئی چیز نہیں ہوتی۔ میں جانتا ہوں اس کو تو اشارہ چاہیے ہوتا ہے اور سطح کے نیچے خون کی دھار بھی جیسے پھوٹ پڑنے کی منتظر ہوتی ہے اور میرے استرے جیسا استرا بھی شہر میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ ناکامی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن بات یہ ہے کہ میں قاتل نہیں ہوں۔ میں خاندانی حجام ہوں اور میرے سامنے میرا گاہک بیٹھا ہے۔ اسے میری دکان سے تروتازہ چہرے کے ساتھ نکلنا چاہیے۔ خراش بھی نہ پڑے۔۔۔ خون کی جھلک تک نظر نہ آئے۔ بس جھاگ۔۔۔ ڈھیروں جھاگ ہو۔ یہ میرا فرض ہے اس سے کون انکار کر رہا ہے کہ یہ قاتل ہے؟ قاتل اور جلاد۔۔۔ مگر میں تو قاتل نہیں ہوں میں تو شہر کا بہترین حجام ہوں۔ دنیا جانتی ہے۔کیپٹن ٹوریس کا چہرہ اجلا اور صاف ہو گیا تھا۔ اس نے پشت سیدھی کر کے خود کو آئینے میں دیکھا پھر اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر کر مسکرایا ’’شکریہ!!‘‘ اس نے کہا اور ہاتھ بڑھا کر گولیوں کی پیٹی اور پستول اٹھایا۔ میرے کپڑے پسینے میں بھیگے ہوئے تھے، آئینے میں میرے چہرے کی زردی بھی عیاں تھی۔ اس نے پیٹی باندھ کر خود پر آخری نظر ڈالی جیب سے پیسے نکال کر مجھے معاوضہ ادا کیا اور دکان سے باہر جانے کے لیے چل پڑا۔ دروازے کے پاس پہنچ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا، اور پھر میری جانب گھوم کر بولا ’’سب کہہ رہے تھے کہ تم مجھے مار ڈالو گے۔ بس یہی معلوم کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر‘‘ اس نے دروازہ کھولتے ہوئے بات مکمل کی ’’قتل کرنا آسان نہیں ہے۔ یقین کرو آدمی کو مارنا بہت مشکل کام ہے‘‘