پاکستان میں اعلیٰ سطح پر ہر طرف ملکی حالات سدھارنے کی کوششیں حسب سابق انتہائی جوش و خروش سے جاری ہیں، خصوصاً عدالت عظمیٰ اور نیب کرپشن کے خلاف جس طرح آج کل سرگرم عمل ہیں، ماضی میں ایسی مثال نہیں ملتی۔ چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار بلاشبہ ملک میں موجود بہت سی خامیوں کو دور کرنے کے لیے پر عزم نظرآتے ہیں، وہ عوامی مسائل کے حل کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں اور اس کے لیے وہ جنون کی حد تک اپنی تمام تر توانائیاں صرف بھی کررہے ہیں۔گزشتہ دنوں اپنے دورہ روس اور چین سے پہلے جناب چیف جسٹس نے عوام پر بے جا ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے بھی نوٹس لیا جو موبائل فون کے استعمال اور پٹرولیم مصنوعات پر عائد ٹیکسوں کے حوالے سے تھا۔ چیف جسٹس نے پاور کمپنیوں کو بھی اپنا قبلہ درست کرنے کی تنبیہہ کی تھی۔ پانی کے حوالے سے چیف جسٹس صاحب کمیشن قائم کرچکے ہیں جبکہ حالیہ دنوں انہوں نے پانی کے مسئلے کو ترجیحِ اول بنالیا ہے۔ اگر چیف جسٹس ثاقب نثار اس حوالے سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یقیناً ملکی تاریخ میں پاکستان کے لیے کچھ کر گزرنے والوں کے ناموں میں ان کا نام سرفہرست ہوگا۔چیف جسٹس آف پاکستان بنیادی طور پر ملک میں تعلیم اور صحت کے حوالے سے کافی فکر مند نظر آتے ہیں، اس حوالے سے بہت سے اقدامات بھی کررہے ہیں اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں۔ بلاشبہ ہمارے یہاں لاتعداد مسائل موجود ہیں اور سب کو ایک ساتھ دیکھنا ممکن نہیں، مگر پھر بھی اگر چیف جسٹس اسی عزم کے ساتھ کوشاں رہے تو بہت سی تبدیلیاں آسکتی ہیں، اس حوالے سے ایک اچھے طبیب کی طرح انہیں قوم کی اصل بیماری کا پتہ چلا کر اس کا علاج بھی کرنا چاہیے۔ اس علاج کے ذریعے وہ قوم کی بہت سی خامیوں اور محرومیوں کو دور کرسکتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ من حیث القوم پاکستانیوں کی گرتی ہوئی اخلاقی قدروں کو بھی بہتر بنانے میں بھی معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ جس مسئلے کا حل تلاش کرنا مقصود ہو اس کے عوامل، وجوہات اور محرکات کا ادراک بھی کیاجائے جس کے لیے زاویہ نظر اور انداز فکر کا کردار اہم ہوتا ہے۔ انداز فکر وہی بہتر ہوسکتا ہے جو پورے تین سو ساٹھ زاویوں سے نہ سہی کم از کم چھ اطراف سے کسی بھی شے کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اگر مطلوبہ تمام زاویوں سے مسئلے کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے عوامل، وجوہات اور محرکات کا تجزیہ کرکے حل کے طریقے تلاش کیے جائیں تو بہتر نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔جب ہم اپنے اجتماعی یا قومی مسائل کی بات کرتے ہیں تو اگرچہ یہ ان گنت ہیں‘ مگر وجوہات بہت ہی محدود سی ہونے کے باوجود ان کے تدارک میں ناکام نظر آتے ہیں جس کی وجہ یہی ہے کہ ہم ان کے عوامل اسباب اور محرکات کا ادراک کرنے اور پرکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے بلکہ فوراََ ہی حل کی جانب لپک پڑے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کبھی کبھار وقتی طور پر ان مسائل سے چھٹکارا تو حاصل ہو جاتا ہے مگر مسائل جڑ سے ختم نہیں ہوپاتے۔تعلیم یقیناً ایک انتہائی توجہ طلب شعبہ ہے مگر محض اس شعبے کی بہتری سے اگر مسائل حل ہوتے ہوں تو صحت کا سارا شعبہ ہی تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس شعبے کی حالت افسوس ناک حد تک گری ہوئی ہے، اور اس شعبے کے ”پڑھے لکھے“ ڈاکٹروں کا حال مہذب حلقوں کے ان پڑھ لوگوں سے بھی بدتر ہے۔ تعلیم یافتہ طبقات میں انجینئر ہوں، اساتذہ یا وکلا، حتیٰ کہ علما‘ ان سب کی ایک ایک بڑی تعداد کو ہوسِ زر نے اندھا بنا رکھا ہے (گویا تنہا تعلیم معاشرے میں موجود خامیوں کا کچھ بگاڑنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے)۔اگر شعبہ صحت کی بات کریں‘ بھلے یہاں کرپشن کو زیرو کی سطح پر لے آئیں مگر اس ناقص خوراک اور مضر صحت پانی کا کیا کریں گے جو بیماریوں کی جڑ ہے (ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ملک میں تقریباََ دس فیصد لوگ ہیپاٹائٹس کی بیماری میں مبتلا ہیں، پانچ فیصد تھیلیسیمیا کے مریض)۔ اگر بیماریوں کی وجہ بننے والے عوامل کا سدباب نہیں کیا جاتا تو اس شعبے میں جتنے مرضی جھاڑو پھیر لیں، گرد اڑانے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔نظام عدل کو لے لیجیے، جب ملک میں قانون کی عملداری ہی ناپید ہوچکی ہو، معاشرے میں جرائم عام ہوجائیں، ہر روز ملزمان اور مقدمات کی نئی نئی کھیپ تیار ہوتی ہوں، پولیس پراسیکیوشن اور وکلا، جب سب کا حال بدترین ہو تو عدالتیں اور جج بیچارے کیا کرلیں گے؟۔ایسی صورتحال میں بھی رحمت باری تعالیٰ سے ناامید نہیں ہوا جاسکتا، ہاں البتہ سنجیدگی اور خلوص شرط ہے، اگر یہ موجود ہوں تو پہلے ان تمام تکالیف کا باعث بننے والی بیماری کی تشخیص، اور پھر اس بیماری کے عوامل، اس کے محرکات اور پھر وجوہات کا پتہ چلاکر باآسانی علاج تلاش کیا جاسکتا ہے۔اب حل کی طرف آتے ہیں، ہمارے سب سے بڑے مسائل احساس کمتری اور احساس محرومی (ناشکری) ہیں جن کے باعث ہم اخلاقی پستیوں کی آخری حدوں کو چھونے جارہے ہیں‘ جنہیں بڑی محنتوں، ریاضتوں اور جتنوں کے بعد ہماری سوچ اور شاید رگوں میں پھیلایا گیا ہے، ہمیں اس نہج پر پہنچا دیا گیا ہے کہ ہم آستین کے سانپوں کو خود اپنے دلوں میں جگہ دیتے ہیں، اپنے خون پسینے سے انہیں پالتے پوستے ہیں، اور یہ ڈستے ہیں تو ہم ان کے زہر سے مسرور ہوتے ہیں۔ یہی زہر ہے جس نے ہمیں غلامی کا نشئی بنا رکھا ہے، اگرچہ اس خطے میں غلامانہ ذہن اور طرز عمل کی قدیم تاریخ ہے مگر انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد اس کی باقیات نے اسے اور بھی پختہ کیا ہے۔تو گویا سب سے پہلے ہمیں اپنے لاشعور میں بسی غلامی سے نجات کی تدبیر سوچنا ہوگی، اگر ہم اس غلامی کے چنگل سے باہر نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو ہمارے بہت سے مسائل حل اور ہماری زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہونا شروع ہوجائیں گی۔ احساس کمتری اور احساس محرومی دور ہوا تو طبقاتی کشمکش کے رجحان میں بھی خود بخود کمی آنا شروع ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہوس زر گھٹنا اور ہماری اخلاقی قدریں بڑھنا شروع ہوجائیں گی۔یقیناً اس کے لیے کچھ وقت درکار ہوگا، اور اس حوالے سے سب سے پہلے ہمیں اصول وضع کرنے ہوں گے، سب سے پہلے آئین پر (متقدرحلقوں کو) خود عمل کرنا ہوگا، پھر کرانے کےلیے قانون کی عملداری کے حوالے سے آغاز کی جانب آنا ہوگا۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ ہی کے ماضی میں کیے گئے چند فیصلوں پر مکمل عملدرآمد اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس جوادایس خواجہ نے ستمبر 2015 میں اردو کو بطور سرکاری زبان رائج کرنے کا فیصلہ صادر فرمایا تھا جو دراصل آئین پر عملدرآمد کے لیے تھا مگر اس پر صحیح معنوں میں عمل تاحال نہیں ہوسکا۔ اگر چیف جسٹس اس فیصلے پر عمل کرانے کی جانب کچھ توجہ دیں تو ملک میں اردو کو وہ مقام مل سکتا ہے جو درحقیقت کسی بھی قومی زبان کا ہونا چاہیے، اور یقینا قومی زبان اور ثقافت کا اپنے اصل مقام پر ہونا‘ قوم کے وقار کی علامت ہوتا ہے جو کسی بھی قوم میں احساس کمتری اور احساس محرومی کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عدالتی دباﺅ کے نتیجے میں ملک کے تمام بالادست ادارے اگر قومی زبان کو آفیشل زبان کے طور پر اپنالیں تو نہ صرف ”من حیث القوم“ یا پاکستانی شہری ہم احساس محرومی اور احساس کمتری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اس سے طبقاتی تقسیم کو کم کرنے میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے۔اعلیٰ سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے اگر سی ایس ایس یا دیگر ایسے امتحانات یا چناﺅ کے طریقہ کار وغیرہ کے لیے قومی زبان کو فوقیت دی جائے تو اعلیٰ عہدوں کی دوڑ کے لیے اردو پر عبور کی خواہش پیدا ہوگی، جس سے اردو زبان جاننے اور اپنی قومی زبان سے محبت رکھنے والا (محب وطن) طبقہ ہی آگے آئے گا، جو مقامی یا قومی (دیسی) ثقافتوں کے فروغ کا باعث بنے گا اور طبقاتی کشمکش کے رجحان میں (درحقیقت) کمی واقع ہوگی۔ ولایتی اور نیم ولایتی طبقے کی اجارہ داری میں کمی آنے سے طبقاتی تقسیم کا عمل خاص حد تک رک جائے گا۔ مختصراََ جب ملک میں انگریزی ”اعلی زبان“ نہ رہے گی تو خود بخود انگریز کی غلامی کا بھوت بھی اترنا شروع ہوجائے گا اور قوم کا غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کا عمل شروع ہوجائے گا جس کا اثر خود بخود شعبہ تعلیم پر بھی پڑے گا اور یکساں نصاب اور مساوی تعلیمی سہولتوں کی راہ ہموار ہوگی، جس سے بعد ازاں مذہبی تعلیم کو روایتی تعلیم کے قریب لانے میں بھی مدد ملے گی۔ (اس کا مطلب ہر گز انگریزی یا کسی بھی دوسری زبان کی مخالفت یا مکمل خاتمہ نہیں بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی یا دیگر علوم کے حصول کے لیے غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے کا آپشن ہر کسی کے پاس ہونا چاہیے۔۔۔ مگر انتظامی معاملات میں جہاں اس کی ضرورت نہیں، عمل دخل قطعی طور پر ختم ہونا چاہیے)عدالتی اور پولیسنگ کے نظام میں درستگی اگرچہ بنیادی اہمیت کی حامل ہے جسے درست کرنے پر توجہ مرکوز کرکے سسٹم کی بہتری کی کوششوں میں تیزی لائی جاسکتی ہے کیونکہ جب پولیسنگ کا نظام درست اور عدالتیں بروقت انصاف فراہم کرنا شروع کردیں گی تو پھر قانون کے ساتھ ملک کا ہر شہری بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا اور کسی فرد یا ادارے کی جرات نہ ہوگی کہ کسی کی حق تلفی کرسکے (اس حوالے سے بھی عدالت عظمیٰ کے تھانوں، عدالتوں اور جیلوں کے نظام میں اصلاحات اور بالخصوص بائیومیٹرک تصدیق کا نظام لاگو کرانے جیسے فیصلوں پر عملدرآمد کی ضرورت ہے)۔اسی طرح پولیس کے ٹھیک ہوجانے سے لوگوں کو عدالتوں کا رخ ہی نہیں کرنا پڑے گا جس سے عدلیہ پر بوجھ خود بخود کم ہوجائے گا، یوں بہت قلیل عرصے میں ہی پاکستانی قوم بہت سے مسائل سے چھٹکارا حاصل کرلے گی۔ یا کم از کم چیف جسٹس صاحب کا حضرت عمر فاروق ؓ جیسا حکمران لانے کا خواب نہ سہی، عمر فاروقؓ کے ادنیٰ غلام جیسی مرتبت کا ہی کوئی حکمران اپنے لیے منتخب کرنے کے لائق ہوجائے گی جو دریائے فرات کے کنارے کسی کتے کے پیاسا مرجانے پر نہ سہی‘ کم از کم ملک کی کسی گارمنٹس فیکٹری میں ڈھائی تین سو افراد کو زندہ جلا کر مار دیے جانے پر تو روز محشر خود کو جوابدہ سمجھنے والا ہو۔اور ہاں! آخر میں ”نبی کریم ﷺ کی سنت‘ عمر فاروقؓ کے عمامے کو جب تک برٹش کنگ چارلس ٹو کی وگ (wig) پر فوقیت نہیں دی جاتی‘ قول و فعل کے تضاد سے ہم اپنی رسوائیوں کا سامان خود کرتے رہے گے۔“