لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) جب سے نئی حکومت آئی ہے ، تب سے یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ ملک کی معیشت کو بہتر کیا جائے ، اس حوالے سے دوست ممالک کے ساتھ ساتھ دیگر ادارے بھی پاکستان پر پیسہ نچھاور کر رہے ہیں اور اب ایشئین انفراسٹرکچر بینک نے پاکستان میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے،بینک کی جانب سے ملنے والی رقم سے کراچی بس ٹرانزٹ100 ملین امریکی ڈالر،لاہور ویسٹ واٹر مینجمنٹ 400 ملین ڈالر، راولپنڈی رنگ روڈ402 ملین ڈالر، کراچیواٹراینڈ سیوریج 160 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری زیرغور ہے،پاکستان کی معاشی پالیسی غیرواضح ہے، واضح پالیسی پر قرض جاری کرسکیں گے،،اسلام آباد میں ایشئین انفرااسٹرکچر انویسمنٹ بینک کی ہیڈ آف کمیونیکیشن مس لورل اوسٹی فیلڈ نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ پاکستان کی معیشت اس وقت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ جس کی وجہ بڑھتے ہوئے قرضے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے۔ غیریقنی کی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پاکستان کی پالیسیاں غیر واضح ہیں،،انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان موجودہ صورتحال سے نکلنے کی کوئی ٹھوس پالیسی بنائیگا توقرض دینے کا فیصلہ کیا جائے گا،، ایشیائ میں روڈ، پل اور دیگر انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا مشن ایشیائ میں معیشت مضبوط کرنا اور انفرااسٹرکچر کی بہتری ہے۔ دوسری جانبپاکستان کی معاشی پالیسی کودیکھا جائے تو گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ بجٹ خسارے کے پیش نظر اسٹیٹ بینک سے 73 کھرب روپے قرضہ لیا گیا۔ پہلے کی نسبت مالی خسارہ کم ہوا ہے،،پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.4 فیصد رہا۔ تاہم افراد زر کی شرح بلند ہوگئی ہے۔عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے سے افراط زر کی شرح بلند ہوئی۔افراط زر کی شرح بلند ہونے سے شرح سود میں 0.25 فیصد اضافہ کیا ہے۔ بڑی فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے۔ نئی شرح سو 10.25فیصد مقرر کردی گئی ہے۔ نئی شرح سود کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا،،گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ آئی ایم ایف کے اپنے تقاضے ہیں، آئی ایم ایف کے پاس جائیں گے توان کی شرائط کو دیکھا جائے گا۔ واضح رہے گزشتہ روزاسٹیٹ بینک کی مالی سال2019ئ کی پہلی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق پہلی سہ ماہی کے دوران مجموعی معاشی ماحول دشوار رہا، جس کی عکاسی ابتدائی ڈیٹا سے ہوتی ہے۔ اہم خدشہ خام تیل کی عالمی قیمتوں میں مسلسل اضافہ تھا جو نہ صرف معیشت میں مہنگائی کے پہلے سے موجود مضبوط مخفی دباو کو بڑھانے کا سبب بنا بلکہ اس نے بیرونی شعبے میں آنے والی بہتری کا اثر بھی زائل کر دیا،، مالیاتی دباو بھی برقرار رہا کیونکہ اخراجات کی غیر لچکداری کی وجہ سے حکومت کے پاس اقدامات کی گنجائش محدود تھی۔ مذکورہ چیلنجوں کے جواب میں نئی سیاسی حکومت نے فوری طور پر ترقیاتی اخراجات میں کٹوتیوں کا اعلان کیا، ٹیکسوں میں دیے گئے ریلیف میں جزوی کمی کی اور بیرونی فنانسنگ کا فرق کم کرنے کے ذرائع بھی تلاش کیے گئے۔