لاہور (ویب ڈیسک) سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں ان کا بیان قلمبند کرنے کے لیے خصوصی عدالت کی جانب سے کمیشن کی تشکیل کے فیصلے پر پاکستان میں میڈیا نے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پیر کو عدالت نے کہا تھا کہ چونکہ جنرل مشرف نے ویڈیو لِنک پر
بیان دینے سے انکار کر دیا ہے لہذا اس مقصد کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیا جائے۔ بی بی سی اردو پر آج پبلش کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق ۔۔۔۔۔جنرل مشرف گذشتہ تقریباً ڈھائی برس سے دبئی میں رہ رہے ہیں۔ ان پر تین نومبر دو ہزار سات کو ہنگامی حالت نافذ کرنے کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ چل رہا ہے۔ سنہ دو ہزار چودہ میں ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ کئی تجزیہ کاروں نے بغاوت کے اس مقدمے میں عدالت پر تنقید کرتے ہوئے اسے وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔ ان کے بقول ‘وہ قانون کے لاڈلے بچے’ اور ‘عدالت کے چہیتے’ ہیں۔ جیو نیوز کے اینکر سلیم صافی نے اپنے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرف کے مقدمے پر بات کرنا ‘وقت ضائع کرنا ہے’ کیونکہ ان پر کبھی مقدمہ چلے گا ہی نہیں۔ اسی پروگرام میں ماہرِ قانون بابر ستار کا کہنا تھا کہ اگر ملزم عدالت میں پیشی سے معذور ہو تو وہ ویڈیو لِنک پر اپنا بیان ریکارڈ کرنے کی استدعا کر سکتا ہے۔ تاہم ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ نہیں کروانا چاہتے۔ بابر ستار نے انھیں ‘قانون کا لاڈلہ بچہ’ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہمیں اس مقدمے پر گفتگو میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔’
ایک اور تجزیہ کار حفیظ اللہ نیازی کا کہنا تھا کہ ‘اگر مشرف کوئی پروفیسر یا سیاستدان ہوتے تو انھیں ہتھکڑیوں میں عدالت میں گھسیٹ کر لایا جاتا۔’ جیو کے ایک اور اینکر شاہزیب خانزادہ نے اپنے شو میں کہا کہ مشرف پاکستان آ کر مقدمے کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں اور نہ ہی ویڈیو لِنک پر بیان ریکارڈ کروانے کو تیار ہیں۔ معروف ماہرِ قانون رشید اے رضوی نے مشرف کا بیان لینے کے لیے کمیشن کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ نئی نظیر ہوگی۔’ ان کا کہنا تھا کہ یہ مقدمہ حد سے زیادہ طول پکڑ گیا ہے کیونکہ مشرف کے ساتھ ‘عدالت چہیتے بچے کا سلوک کر رہی ہے۔’ ان کے بقول نہ تو سابق حکومت نے اس مقدمے کی صحیح پیروی کی اور نہ ہی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔ جنرل مشرف اپنی سلامتی اور صحت کے بارے میں تشویش کو جواز بنا کر عدالت میں پیشی سے معذرت کرتے رہے ہیں۔ مئی دو ہزار سولہ میں عدالت نے جنرل مشرف کو مفرور قرار دے کر وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے، کو انھیں بارہ جولائی دو ہزار سولہ کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ جنرل مشرف نے کہا تھا کہ وہ فوج کی حفاظت اور اس یقین دہانی کے ساتھ عدالت میں پیش ہونے کو تیار ہیں کہ انھیں دبئی واپس جانے دیا جائے گا۔ اگر جنرل مشرف پر بغاوت کا الزام ثابت ہوجائے تو انھیں پھانسی یا عمر قید ہو سکتی ہے۔