سوشلستان میں معمول کے مطابق پانامہ لیکس کیس کے حوالے سے سپننگ کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔
عدالت کی کارروائی کے بعد اصل کہانی شروع ہوتی ہے جس میں سیاسی جماعتیں اور رہنما کارروائی کی جزیات کو اپنے مطابق سپن کرتے ہیں جس کی پیروی میں سوشل جہادی بگٹٹ دوڑتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ سمت کیا ہے۔
مگر اس ہفتے اور بھی اہم باتیں زیرِ بحث رہیں جن کا ذکر کرتے ہیں۔
‘خواجہ سراؤں کی تضحیک میں ہم سب شامل ہیں’
گذشتہ دنوں ایک خواجہ سرا کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ان کے ساتھ ایک شخص ذلت آمیز سلوک کر رہا تھا اور ساتھ ویڈیو بھی بنوا رہا تھا شاید اس لیے کہ اس ظلم کی سند رہے۔
پاکستان میں خواجہ سراؤں کے حوالے سے مسائل نئے نہیں اور اس سے قبل بھی ایسے کئی کیس سامنے آچکے ہیں۔
جہاں لوگ اس ویڈیو کی مذمت کر رہے ہیں وہیں پاکستان کے نیوز میڈیا پر چلنے والے ‘مختلف شوز میں بلا تفریق خواجہ سراؤں کو جس طریقے سے پیش کیا جاتا ہے’ اس پر بھی تنقید کی جا رہی ہے۔
کیونکہ خواجہ سراؤں کے حوالے سے ‘ایک مخصوص سوچ ہے جو پائی جاتی ہے جسے ہمارا میڈیا بھی ایک خاص انداز سے پیش کرتا ہے۔
قیصر رونجھا نے لکھا کہ ‘میڈیا خود بھی اس مسئلے سے آشنا نہیں آپ اس وجہ سے خواجہ سراؤں کے ساتھ میڈیا کے رویے کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔’
بشارت عزیز کا کہنا تھا کہ ‘بالکل غلط طریقے سے خواجہ سراؤں کو پیش کیا جاتا ہے جس سے اُن کی عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے۔’
فرحان قریشی کا کہنا تھا کہ ‘پاکستانی میڈیا میں خواجہ سراؤں کو دوسری مخلوق بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔’
حیدر گل کا کہنا تھا کہ ‘اگر میڈیا انہیں اچھے طور پر پیش کرے تو ان کے بارے میں لوگوں کے سوچنے کا انداز بدلے گا۔’
اور اس بات پر بہت سوں کا اتفاق ہے کہ ‘خواجہ سراؤں کو ایک مخصوص انداز میں دکھانے والوں کے ساتھ ساتھ دیکھنے والوں کا بھی قصور ہے۔’