counter easy hit

افغان امن مذاکرات سے پہلے جنگ کے خاتمے کا تقاضا غیر منطقی ہے، طالبان

اسلام آباد(یس اردو نیوز)بین الافغان امن مذاکرات کے انعقاد سے قبل باغی گروپ سے حملوں کو روکنے کی بات غیر منطقی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے میڈیا جو جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ یہ انتہائی غیر منطقی تقاضا ہے کہ پہلے لڑائیاں ختم ہوں اور پھر امن مذاکرات شروع کیے جائیں۔ جنگ اس لیے جاری ہے کہ ہمیں اب بھی متبادل راستے کی تلاش ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ بین الافغان امن مذاکرات جنگ کے خاتمے کی شرط اول ہیں۔ امن مذاکرات افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قیدیوں کے معاملے پر آ کر پھنس گئے ہیں۔ مجاہد نے زور دے کر کہا کہ فوری طور پر قیدیوں کے تبادلے کو مکمل کر کے افغان فریقوں کے درمیان بات چیت کا آغاز کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کا یہ حقیقی اور منطقی راستہ ہے۔ افغانستان کے تمام فریقوں کے درمیان مارچ میں مذاکرات ہونے تھے۔ مگر قیدیوں کے تبادلے میں اختلاف کی وجہ سے یہ اب تک التوا کا شکار ہیں۔افغان طالبان کا یہ بیان افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی کے بیان کے بعد آیا ہے جنھوں نے ایک بار پھر طالبان سے کہا کہ وہ تشدد کو ترک کر کے مذاکرات کی میز پر آئیں۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ افغانستان کے شہروں میں پرتشدد واقعات میں اضافے، سیکیورٹی فورسز پر بموں کے بڑھتے ہوئے حملوں نے افغانستان کے عوام اور بین الاقوامی برادری کی امیدوں اور توقعات پر پانی پھیر دیا ہے۔ مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوششں ماند پڑ رہی ہے۔ دریں اثنا دوحہ میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ قندھار میں امارت اسلامیہ کے حکام نے مزید 10 افغان فوج اورپولیس کےاہلکاروں کو رہا کردیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا ایک سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ رہائی پانے والے قیدیوں کو امارت اسلامیہ کی پیش کردہ فہرست کے مطابق ہونا چاہئے ، جس نے انہیں دوحہ میں رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ افغان حکومت کہتی ہے کہ اس نے اب تک 4 ہزار سے زیادہ طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا ہے۔ جب کہ وعدے مطابق اسے 5 ہزار قیدی رہا کرنے تھے۔ دوسری طرف طالبان کا کہنا ہے انہوں نے 770 افغان حکومت کے قیدیوں کو چھوڑ دیا ہے، جب کہ انہوں ایک ہزار قیدیوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا۔

حالیہ ہفتوں میں طالبان کے حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے علاوہ لاتعداد شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔ انہی حملوں کو جواز بنا کر صدر غنی نے بقیہ طالبان قیدیوں کی رہائی کو مشروط بنا دیا ہے۔ افغان حکام کا کہنا ہے طالبان قیدیوں پر بے گناہ شہریوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہل کاروں کے قتل کا الزام ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت امریکی زیر قیادت اتحادی افواج جولائی 2021 تک افغانستان سے نکل جائیں گی اور اس کے جواب میں طالبان کو یہ ضمانت دینا ہو گی کہ ملک سے تشدد کا خاتمہ کیا جائے گا، مکمل جنگ بندی پر عمل کیا جائے گا اور افغانستان کے تمام گروپوں ساتھ مل کر اقتدار میں شراکت داری قائم کی جائے گی۔

قیدیوں کی رہائی کا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ رہائی پانے والے قیدیوں کو امارت اسلامیہ کے مطابق درج کیا جانا چاہئے ، جس نے دوحہ میں ان کی رہائی کا فیصلہ کیا ہے۔

Today, once more, 10 soldiers and policemen of the Kabul Administration were released from a prison of the Islamic Emirate in Kandahar province and sent to their families after they were given the usual package of assistance.

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website