تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی
تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اور عظیم مسلمان سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔ دنیا آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے نہ صرف واقف تھے بلکہ اس پر مکمل عبور بھی رکھتے تھے۔
جابر بن حیان کی پیدائش ٧٣١ء میں بمقام طوس جبکہ ایک روایت کے مطابق خراسان میں ہوئی۔ اس کیمیا دان کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے ”اذو” سے تھا۔ ان کی پیدائش اِن کے باپ کی جلا وطنی (جو کہ ایک روایت کے مطابق وفات) کے دوران ہوئی۔ بہت ہی چھوٹی سی عمر میں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ جانے کے بعد ان کی ماں نے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت کی۔ ہوش سنبھالا تو ماں انہیں کوفہ کے مضافات میں اپنے میکے میں پرورش پانے کے لئے بھیج دیا۔ لہذا اچھی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔
جابر بن حیان کا روزگار دوا سازی اور دوا فروشی تھا یعنی کہ جابر ایک حکیم بھی تھے۔ جوان ہونے کے بعد انہوں نے کوفہ میں رہائش اختیار کی۔ اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔ کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور کیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے، اس وقت کی رائج یونانی تعلیمات نے ان پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ علم حاصل کرنے کے دوران اس نے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو سونا بنانے کے جنون میں مبتلا دیکھا تو خود بھی یہ روش اپنا لی۔
کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی کی وجہ سے اس نے تجربات کا سلسلہ ختم نہ کیا۔ اس نے اپنے والد کے آبائی شہر کوفہ میں اپنی تجربہ گاہ تعمیر کی۔ خلیفہ ہارون رشید کے وزیر یحییٰ برمکی کی چہیتی بیوی شدید بیمار ہوئی، بہترے علاج کے بعد بھی شفا نہ ہوئی، جب یحییٰ اس کی زندگی سے مایوس ہوگیا تو مشورتاً اس نے ایک حکیم سے رجوع کیا۔ اس حکیم نے صرف ایک دوا” دو گرین” تین اونس” شہد” میں ملا کر ایک گھونٹ پلائی۔ آدھے گھنٹے سے بھی کم وقت میں مریضہ پہلے کی طرح صحتیاب ہوگئی۔ یہ دیکھ کر یحییٰ برمکی اس حکیم کے مرید ہوگئے مگر اس حکیم نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور بقیہ دوا بھی اسے دے دی۔ یہ حکیم جابر بن حیان ہی تھا جس کی طبیبانہ مہارت نے حاکمِ وقت کے دل میں گھر کر لیا۔
وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سوچ اور تجربے میں منہمک رہتے ۔ گھر نے تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر لی۔ سونا بنانے کی لگن میں انہوں نے بے شمار حقائق دریافت کئے اور متعدد ایجادات کیں۔ جابر بن حیان نے اپنے علمِ کیمیا کی بنیاد اس نظریئے پر رکھی کہ تمام دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ”گندھک ”اور ”پارہ” ہیں۔ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ملنے سے دیگر دھاتیں بنیں۔ ان کے خیال میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ ان کی حالت اور تناسب تھا۔ لہٰذا معمولی اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا، ان میں مشاہدہ ذہانت لگن اور انتھک محنت کرنے کی صلاحیت بدرجہ اُتم موجود تھی۔جابر بن حیان ” قرع النبیق” نامی ایک آلہ کے بھی موجد تھے جس کے دو حصے تھے۔ ایک حصہ میں کمیائی مادوں کو پکایا جاتا اور مرکب سے اٹھنے والے بخارات کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیا جاتا تھا۔ یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت اختیار کر لیتے، کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لئے آج بھی اس قسم کا آلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا موجودہ نام ” ریٹاٹ” ہے۔
ایک دفعہ کسی تجربے کے دوران ” قرع النبیق” میں بھورے رنگ کے بخارات اُٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہوا تھا۔ حاصل شدہ مادہ اس قدر تیز تھا کہ دھات گل گئی، جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہوگئے، چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا۔ جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی۔ اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو انہوں نے” تیزاب” یعنی ”ریزاب” کا نام دیا۔ پھر اس تیزاب کو دیگر متعدد دھاتوں پر آزمایا لیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتین گل گئیں۔ جابر بن حیان مزید تجربات میں جُٹ گئے۔ آخر کار انہوں نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاً گندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک ایسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا۔
اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچانے کے لئے لوہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے، خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔ اس کے علاوہ فولاد کی تیاری، پارچہ بافی ، چرم کی رنگائی اور شیشے کے ٹکڑے کو رنگین بنانا وغیرہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے ان کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ عمل کشید اور تقطیر کا طریقہ بھی جابر کا ایجاد کردہ ہے۔ انہوں نے قلمائو یعنی کرسٹلائزیشن کا طریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کئے۔
جابر نے کیمیا ء کی اپنی کتابوں میں بہت سی اشیاء بنانے کے طریقے درج کئے۔ انہوں نے کئی اشیاء کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔ انہوں نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے ” قرع النبیق” کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی ” سائنسی ” اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی۔ بقراط، ارسطو، اقلیدس، ارشمیدس، بطلیموس اور جالینوس کے بعد صرف اسکندریہ کی آخری محقق ”پائپا تیا ”چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی لہٰذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان کی تھی۔ اس کے بعد گیارہویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا۔ جابر بن یان کا انتقال ٨٠٦ء میں دمشق میں ہوا۔
تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی