تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اور عظیم مسلمان سائنسدان جابر بن حیان جس نے سائنسی نظریات کو دینی عقائد کی طرح اپنایا۔ دنیا آج تک اسے بابائے کیمیا کے نام سے جانتی ہے۔ اہل مغرب ’’Geber ‘‘کے نام سے جانتے ہیں ۔ جابر بن حیان کو کیمیا کا بانی مانا جاتا ہے ۔وہ کیمیا کے تمام عملی تجربات سے واقف تھا۔
نام :: جابر بن حیان
تاریخ پیداءش :: 721
815 :: تاریخ وفات
وجھ شھرت :: سائنسدان
15 ویں صدی کے ایک یورپی مصور کا تخلیق کردہ جابر بن حیان کا خاکہان کی اندازا تاریخ پیدائش 731 اور مقام طوس یا خراسان تھا۔ جابر بن حیا ن کا روزگار دوا سازی اور دوا فروشی تھا۔
یعنی کہ جابر بن حیا ن ایک حکیم بھی تھے بہت چھوٹی عمر میں ہی باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا توان کی ماں نے ان کی پرورش اور تعلیم و تر بیت کی۔ جابر بن حیان نے کچھ ہوش سنبھالی تو ماں انہیں کوفہ کے مضافات میں اپنے میکے پرورش پانے کے لئے بھیج دیا ۔ لہذا اچھی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ جوان ہونے کے بعد انہوں نے کوفے میں رہایش اختیار کی۔ اس زمانے میں کوفہ میں علم و تدریس کے کافی مواقع تھے۔
کوفہ میں جابر نے امام جعفر صادق کی شاگردی اختیار کی جن کے مدرسے میں مذہب کے ساتھ ساتھ منطق، حکمت اور الکیمیا جیسے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔ اس وقت کی رائج یونانی تعلیمات نے اس پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ علم حاصل کرنے کے دوران اس نے اپنے اردگرد کے لوگوں کو سونا بنانے کے جنون میں مبتلا دیکھا تو خود بھی یہ روش اپنا لی ۔
کافی تجربات کے بعد بھی وہ سونا تیار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ لیکن کیمیا میں حقیقی دلچسپی کی وجہ سے اس نے تجربات کا سلسلہ ختم نہ کیا۔ تاریخ کا سب سے پہلا کیمیا دان اور عظیم مسلمان سائنسدان طوس میں اپنے باپ کی جلا وطنی (ایک روایت کے مطابق وفات) کے دوران پیدا ہوا۔ جابر کا تعلق عرب کے جنوبی حصے کے ایک قبیلے اذد سے تھا۔ اس نے اپنے والد کے آبائی شہر کوفہ میں اپنی تجربہ گاہ تعمیر کی۔
نظریات
جابر کی فکر میں نظریہ میزان کی حیثیت کلیدی ہے ۔قرآن کریم میں لفظ میزان متعدد جگہ پر آیا ۔اس سے کائنات توازن کے علاوہ دونوں جہاں میں اللہ کا عدل اور روز قیامت کی جزاوسزا بھی مراد ہے کائنات کا ذرہ ذرہ میزان کی منہ بولتی تصویر ہے۔
آفتاب ماہتاب جمادات، حیوانات نباتات تمام جاندار و غیر جاندار اشیاکی حرکت اور سکون کا دارومدار میزان پر ہے ۔ میزان کا ئناتی اصولوں کا مرکز و محور ہے ۔ جابر کے نزدیک عداد اسی توازن کا مظہر ہیں جس کی بنیاد پر دنیا وجود میں آئی اور قائم ہے۔ یوں انیسویں صدی کے انگریز مفکروں کی طرح جابر بن حیان نے بھی سائنسی نظام کا رشتہ اپنے دینی عقائد کے ساتھ نتھی کر لیا تھا ۔
خدمات
جابر بن حیان کا مصورانہ خاکہ اس نے اپنی کیمیا کی کتابوں میں فولاد بنانے، چمڑے کو رنگنے، دھاتوں کو صاف کرنے، مومجامہ بنانے، لوہے پر وارنش کرنے، خضاب تیار کرنے کے علاوہ دیگر بہت سی اشیا بنانے کے طریقے درج کیئے۔ اس کے کئی اشیا کے سلفائڈ بنانے کے بھی طریقے بتائے۔
اس نے شورے اور گندھک کے تیزاب جیسی چیز دنیا میں سب سے پہلی بار ایجاد کی۔ جو کہ موجودہ دور میں بھی نہایت اہمیت کی حامل اور سنسنی خیز ہے۔ اس نے سب سے پہلے قرع النبیق کے ذریعے کشید کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ یہ امرقابل ذکر ہے کہ پوری دنیا میں علمی “سائنسی” اور فکری حوالے سے دوسری صدی عیسویں کے بعد کوئی اہم شخصیت پیدا نہ ہوئی تھی ۔
بقراط “ارسطو”” “اقلیدیس ” ار شمیدیش بطلیموس اور جا لینوس کے بعد صرف سکندریہ کی آخری محقق ہائپاتیا چوتھی صدی عیسویں میں گزری تھی ۔ لہذا علمی میدان میں چھائی ہوئی تاریکی میں روشن ہونے والی پہلی شمع جابر بن حیان تھا ۔ اس کے بعد گیارھویں صدی تک مسلمان سائنسدانوں اور مفکروں کا غلبہ رہا ۔
تراجم تب
جابر بن حیان کی تمام تصانیف کا ترجمہ لاطینی کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔ تقریباآٹھ نو سو سال تک کیمیا کے میدان میں وہ تنہا چراغ راہ تھا ۔ اٹھارھویں صدی میں جدید کیمیا کے احیا سے قبل جابر کے نظریات کو ہی حرف آخر خیال کیاگیا ۔ بطور کیمیادان اس کا ایمان تھا کہ علم کیمیا میں تجربہ سب سے اہم چیز ہے ۔
اس نے عملی طور پر دنیا کو دکھایا کہ کچھ جاننے اور سیکھنے کے لئے صرف مطالعے اور علم کے علاوہ خلوص اور تندہی کے ساتھ تجربات کی بھی ضرورت ہے ۔ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی سوچ اور تجربے میں منہمک رہتا ۔ گھر میں ہی تجربہ گاہ کی صورت اختیار کر لی ۔
سونا بنانے کی لگن میں اس نے بے شمار حقائق دریافت کئے اور متعدد ایجادات کیں ۔ جابر بن حیان نے اپنے علم کیمیاکی بنیاد اس نظرئیے پر رکھی کہ تمام دھاتوں کے اجزائے ترکیبی گندھک اور پارہ ہیں ۔ مختلف حالتوں میں اور مختلف تناسب میں ان دھاتوں کے اجزائے ترکیبی ملنے سے دیگر دھاتیں بنیں ۔ اس کے خیال میں دھاتوں میں فرق کی بنیاد اجزائے ترکیبی نہیں بلکہ ان کی حالت اور تناسب تھا ۔
لہذا معمولی اور سستی دھاتوں کو سونے میں تبدیل کرنا ممکن تھا ۔ اس میں مشاہدہ ذہانت لگن اور انتھک محنت کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی ۔دوسرے وہ یہ سمجھتا تھا کہ منزل مقصود کبھی نہیں آتی جسے پالیاوہ منزل نہیں ۔اس شعورنے اسے کائنات کی تحقیق میں آگے ہی آگے بڑھتے جانے کی دھن اور حوصلہ دیاجابر قرع دانبیق نامی ایک آلہ کا موجد تھا جس کے دو حصہ تھے۔
ایک حصہ میں کمیاوی مادوں کو پکایا جاتا اور مرکب سے اٹھنے والی بخارات کو نالی کے ذریعہ آلہ کے دوسرے حصہ میں پہنچا کر ٹھنڈا کر لیاجاتا تھا ۔یوں وہ بخارات دوبارہ مائع حالت اختیار کر لیتے ۔کشیدگی کا یہ عمل کرنے کے لئے آج بھی اس قسم کا آلہ استعمال کیاجاتا ہے ۔اس کا موجود ہ نام ریٹاٹ ہے ۔
ایک دفعہ اس میں بھورے رنگ کے بخارات اٹھے اور آلہ کے دوسرے حصہ میں جمع ہو گئے جو تانبے کا بنا ہو تھا ۔حاصل شدہ مادہ اس قدر تیزتھا کہ دھات گل گئی ۔ جابر نے مادہ کو چاندی کے کٹورے میں ڈالا تو اس میں بھی سوراخ ہو گئے ۔چمڑے کی تھیلی میں ڈالنے پر بھی یہی نتیجہ نکلا ۔
جابر نے مائع کو انگلی سے چھوا تو وہ جل گئی ۔اس کاٹ دار اور جلانے کی خصوصیت رکھنے والے مائع کو اس نے تیزاب یعنی ریزاب کا نام دیا ۔پھر اس تیزاب کو دیگر متعددھاتوں پر آزمایالیکن سونے اور شیشے کے علاوہ سب دھاتیں گل گئیں ۔جابر مزید تجربات میں جٹ گیا۔ آخر کار اس نے بہت سے کیمیائی مادے مثلاگندھک کا تیزاب اور ایکوار یجیا بنائے۔
حتی کہ اس نے ایک اییسا تیزاب بنایا جس سے سونے کو بھی پگھلانا ممکن تھا اس نے دھات کا کشتہ بنانے کے عمل میں اصلاحات کیں اور بتایا کہ دھات کا کشتہ بنانے سے اس کا وزن بڑھ جاتا ہے ۔ عمل کشید اور فلٹر کا طریقہ بھی اس کا ایجاد کردہ ہے۔ اس نے قلمائو یعنی کرسٹلائزیشن کاطریقہ اور تین قسم کے نمکیات دریافت کیے۔ اس کے علاوہ لوہے کو زنگ سے بچا نے لو ہے پر وارنش کرنے، موم جامہ بنانے،چمڑے کو رنگنے اور خضاب بنانے کا طریقہ دریافت کیا۔
دیگر علوم اور کتابیں
ابن حیان کے کیمیا کی بھی سی کتب کے علادہ اقلیدس کی کتاب “ہندسے”، بطلیموس کی کتاب “محبطی” کی شرحیں بھی لکھیں۔ نیز منطق اور شاعری پر بھی رسالے تصنیف کئے۔ اس سب کے باوجود جابر مذہبی آدمی تھا اور امام جعفر صادق علیہ السلام کا پیروکار تھا۔ اس کی تحریروں میں200 سے زیادہ کتابیں شامل ہیں۔