لاہور: ہر الیکشن سے پہلے میاں شریف مرحوم کے فرزند نظریاتی ہو جاتے ہیں۔ ہمیشہ یہ نظریہ ایک نہیں ہوتا۔ 1985 ء میں صرف ایک نکتے پر مشتمل تھا: جنرلوں کے حضور کورنش بجا لانا ‘باوردی کمزوریوں کی فہرست اور ان کی آسودگی کا انتظام۔ 1988ء اور 1990 ء میں جنرل محمد ضیاء الحق کے ایجنڈے کی تکمیل۔
پیپلزپارٹی سے نفرت کرنے والے ووٹروں کے جذبات کی تسکین۔ بھٹو خاندان سے کراہت کا اظہار۔ انہیں غدّار اور ابلیس ثابت کرنے کی مہم۔ 1993ء اور 1996ء میں ایجنڈا کچھ بدل گیا۔ شخصیات کے باب میں خیالات بھی۔ مثلاً 1993ء میں سردار فاروق احمد خان لغاری ”انگریزوں کے کتے نہلانے والے‘‘ جاگیردار تھے۔ 1996ء میں سیدہ عابدہ حسین کو جس شخص کی خدمت میں بھیجا گیا‘ یقین اسے دلایا گیا کہ آپ ہمیشہ ہمارے محترم صدر رہیں گے۔ غلام اسحق خان سے بار بار جس طرح یہ کہاجاتا:میرے ہی نہیں آپ کے بھی یہ بیٹے ہیں۔ یہ الگ بات کہ موقع ملتے ہی غلام اسحٰق خان اور فاروق خان کو پہاڑی سے دھکا دے دیا گیا۔ لغاری مرحوم کی اولاد بعد کو قبول کرلی گئی۔ تہجد گزار باپ کے یہ فرزند بھی اس حال کو پہنچے کہ شریف خاندان کے بندے بن گئے۔ع من قبلہ راست کردم از طرفے کج کلاہے۔ 1988 ء اور 1990ء میں نوازشریف اس قابل نہ تھے کہ قوم کو دھوکہ دے سکتے۔ یہ کارِخیر جنرلوں نے انجام دیا‘ ملاّ کی مدد سے‘ تاجروں کی مدد سے‘ جو نابغہ مگر منتقم مزاج بھٹو کی اولادسے خوف زدہ تھے۔
ایرانی شاعر کے مطابق‘ شاہ و شیخ و شہنہ یعنی بادشاہ‘ ملاّ اور تاجر ہمیشہ ایک ہوتے ہیں۔ فارسی کی ایک اور ضرب المثل بھی ہے۔ ”ہیج خیراز بندۂ زرکش مجو‘‘۔ دولت کے بھوکے سے خیر کی امید نہ رکھا کرو۔ ہم نے امید رکھی اور ہم رسوا ہوئے۔ افراد‘ اقوام اور قبائل کا مذہب وہ نہیں ہوتا‘ جس کا وہ اعلان کرتے پھرتے ہیں بلکہ وہ جس پر عمل پیرا ہوں۔ جنرلوں کا‘ سیاست دانوں کا‘ کاروباریوں کا‘ مذہبی‘ سیاسی پارٹیوں کا‘ مذہب اقتدار تھا‘ استحصال تھا۔ اسلام‘ جمہوریت اور پاکستان نہیں۔ دردمندوں کے ساتھ دردمندی نہیں۔ اپنی آرزوئوں کے طلسم میں گرفتار گروہ‘ جن میں سے اکثر خود اپنا تجزیہ کرنے پہ قادر نہ تھے۔ جمہوریت کے نام پر‘ جمہور کا خون نچوڑنے کے منصوبے۔ اسلام کے نام پر ہوسِ اقتدار کو آسودہ کرنے‘ لقمہ تر کی منصوبہ بندی‘ غریب کے نام پر‘ افتادگان ِخاک کا لہو سے ہیرے ڈھالنے کے خواب۔رانا صاحب سے پرسوں ایک ووٹر نے کہا:ہر بار میں نے انقلاب کے لئے ووٹ دیا۔ پیپلزپارٹی‘ نون لیگ‘ قاف لیگ اور اب تحریک انصاف کی تائید کرنے والا ہوں۔ ہر بار میرا امیدوار مگر ایک ہی رہا‘ جعفر لغاری۔ 2013 ء سے قبل سردار جعفر خان لغاری اور ان کی قابلِ صد احترام اہلیہ عمران خان کے ہم سفر بننے پر آمادہ تھے۔ ذہنی تحفظ یہ تھا کہ کسی کی وہ پروا نہیں کرتا۔
اب تو وہ اور بھی بے نیاز ہے۔ اب تو ان کے سوا ہمیشہ جو ہاں میں ہاں ملاتے ہوں‘ ذاتی دوستوں کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتا۔ بعض اعتبار سے جعفر لغاری بھی قابلِ قبول گردانے جاتے ہیں۔ مینا لغاری مگر کمال کی خاتون ہیں‘ عبادت گزار‘ تسبیح شعار۔ سترھویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دینے سے انکار کردیا تھا‘ حتیٰ کہ استعفے کی پیشکش کی۔ ناچیز کے دل میں ان کی بے حد عزت ہے۔ پاکستانی اشرافیہ کا مسئلہ مگر وہی ہے جو عامیوں کا‘المناک احساسِ عدمِ تحفظ۔ کل سب کے سب نون لیگ کی طرف بھاگے چلے جاتے تھے۔ آج سب تحریک انصاف کی طرف بگ ٹٹ ہیں۔ کیا شعر یاد آیااور کس کا؟ شاعرِ رحمت اللعالمین جناب حسّان بن ثابتؓ کا ”بادلوں کی طرح ہماری اونٹنیاں بھاگی چلی جاتی ہیں اور ان کے پہلوئوں پر پیاسے نیزے رکھے ہیں۔ فرق بس اتنا سا کہ ہتھیلیوں پر رکھے وہ زندگیاں نذر کرنے کو لپکتے تھے‘‘۔ہمارے شہسوار اقتدار کی بو پا کر۔امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا تھا: میں یہ مان سکتا ہوں کہ بادہ نوشی کے بعد ایک آدمی ہوش میں ہو ‘مگر یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ کوئی مقتدر ہوش کی حالت میں پایا جائے۔ ان پہ نگراں رہنا پڑتا ہے‘ بادشاہوں پہ وگرنہ شہری رعیت بن جاتے ہیں اور سلاطین ظل الٰہی بلکہ الٰہی۔
اکبراعظم نے دین الٰہی بعد میں ایجاد کیا‘ باجبروت علائوالدین خلجی نے صدیوں پہلے ارادہ کیا تھا۔ خوش قسمت ثابت ہواکہ ایک مشیر نے بچا لیا۔ ایک شب خمار کے عالم میں ایک نئے مذہب کا اعلان کرنے ہی والا تھا۔ظل الٰہی میاں محمد نوازشریف کا عقیدہ 1985 ء میں کچھ اور تھا‘ 1988 ء اور 1990 ء میں کچھ اور ہوا۔ بتدریج بعد میں تبدیلیاں آتی گئیں۔ محمود خان اچکزئی‘ مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالیٰ‘ افلاطون پرویز رشید‘ ارسطو نجم سیٹھی اور لقمانِ عصر امتیاز عالم اب انہیں بھاتے ہیں۔ بھارت اور امریکہ سے جو جتنا قریب ہے‘ قائداعظم ثانی کو اتنا ہی عزیز۔میاں صاحب محترم نے تو انکار کردیا تھا‘ جنرلوں کی جستجو اور جدوجہد سے قبائلی پٹی بالآخر انشاء اللہ صوبے کا حصہ بن جائے گی۔ ملک کا سب سے مفلس‘ محروم اور مجروح خطہ۔ دیہی سندھ اور قبائلی بلوچستان سے بھی زیادہ؛ اگرچہ عساکر نے بہت کچھ تعمیر کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فقط ایک فیصلہ ان کی زندگیاں بدل ڈالے گا۔پہلی بات تو یہ ہے پہلے ہی اقدام کیا ہوتا‘ تو ”را‘‘ اور سی آئی اے کو موقعہ نہ ملتا۔ منظور پشین ایسے مہرے نمودار نہ ہوتے‘ گھر گھر‘ گلی گلی‘قریہ قریہ جوزہر پھیلا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ افواج نہیں یہ سول ادارے ہیں‘ جو معاشروں کی تعمیروترقی کے ضامن ہوتے ہیں۔ سول سروس‘ بھٹو نے جس کی ریڑھ کی ہڈی توڑ ڈالی تھی اور اب تک ٹوٹی پڑی ہے۔ شریفوں نے اسے سڑکوں پر گھسیٹا اور عزت نفس سے محروم کردیا۔ زرداری خاندان کی طرح غلاموں کی طرح برتا ہے۔ اس کی تشکیل نو کرنا ہوگی۔ پولیس اور پٹوار کی بھی۔ سب سے بڑھ کر تعلیم کا فروغ۔ اُس قوم کا کوئی مستقبل نہیں‘ فروغ علم جس کی ترجیح نہ ہو۔