جنوبی ہند کی ریاست تامل ناڈو کے شہر مدورائی میں اس ہفتہ، جلی کاٹو کے میلے کے دوران ایک 19 سالہ لڑکا بپھرے ہوئے بیل سے کچل کر ہلاک ہوگیا۔ اس خونخوار میلے میں 1200 بیل شامل تھے۔ ادھر راما نتھن پورم کے قصبہ میں اسی میلہ کے دوران دو تماشائی بیلوں کے حملہ میں ہلاک ہوگئے اور پچاس افراد زخمی ہوگئے۔ پچھلے چند برسوں میں جلی کاٹو کے دوران پچاس سے زیادہ لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور بیس سے زیادہ بیل ہلاک ہوگئے ہیں۔
تامل ناڈو میں جلی کاٹو کے اس میلے کی روایت بہت قدیم ہے،کوئی چار سو سال قبل مسیح سے یہ روایت شروع ہوئی تھی۔ جلی کاٹو دو الفاظ کا مرکب ہے۔ جلی کے معنی سکے ہیں اور کاٹو تھیلوں کو کہا جاتا ہے۔ سکے بھرے تھیلے بیل کے سینگھوں میں باندھے جاتے ہیں۔ ہر سال جنوری کے دوسرے ہفتہ میں فصل کی کٹائی کے بعد بڑے اہتمام، انتظام اور مذہبی جوش وخروش کے ساتھ چار دن تک یہ میلہ ہوتا ہے۔ میلہ میں پورے سال سدھائے اور اعلی ٰچارہ کھلائے ہوئے بڑے بڑے کوہان والے موٹے تگڑے بیل ایک تنگ راستہ سے کھلے میدان میں چھوڑے جاتے ہیں، جہاں اپنی بہادری جتانے کے لئے لوگ ایک ایک کر کے اس بیل کو زیر کرنے، اس پر چڑھ کر اس کے کوہان کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو شخص بیل کے کوہان کو پکڑ کر اس کے سینگھوں تک پہنچ جاتا ہے وہ اس انعام کا مستحق قرار پاتا ہے جو بیل کے سینگھوں میں بندھے ہوئے تھیلوں میں نقد رقم کی صورت میں ہوتا ہے۔ جو شخص کوہان پکڑنے میں ناکام رہتا ہے اسے بیل دور تک کھینچتا ہوا لے جاتا ہے اور زمین پر پٹخ دیتا ہے۔
ایک کھیل میں صرف ایک شخص بیل کو زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے، دوسرے کھیل میں بیل کے ساتھ پچاس فٹ لمبی رسی باندھی جاتی ہے اور سات یا نو کھلاڑیوں کی ٹیم رسی گھما گھما کر بیل کو زیر کرنے کی کوشش کرتی ہے۔یہ کھیل بہت مہلک ہوتا ہے کیونکہ ٹیم کے اراکین جب نیچے گر جاتے ہیں تو رسی میں بندھا بپھرا ہوا بیل انہیں روند ھ ڈالتا ہے اور غصہ میں آکر سینگھ مار مار کر ہلاک کردیتا ہے۔ ٹیم جب بیل کو زیر کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو سینگھوں میں بندھا انعام ان میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
2014ء میں جانوروں کی بہبود کے کارکنوں کی درخواست پر ہندوستان کی سپریم کورٹ نے جلی کاٹو کو جانوروں کے ساتھ ظلم قرار دیا تھا اور اس کی ممانعت کردی تھی لیکن 2016ء میں سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف لاکھوں لوگ مرینا ساحل پر نکل آئے جن کا استدلال تھا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہماری تاریخ اور ہماری ثقافت کا حصہ ہے جس پر پابندی عائد نہیں کی جاسکتی۔ اس احتجاج کے بعد تامل ناڈو کی حکومت نے سیاسی مصلحت کے پیش نظر باقاعدہ ایک قانون منظور کر کے سپریم کورٹ کی ممانعت کو نظر انداز کردیا اور یہ خونخوار کھیل پھر شروع ہوگیا۔
اسی نوع کی ایک رسم ہسپانیہ میں بے حد مقبول ہے۔ جو بیل دوڑ رہا ہے کہلاتی ہے۔ جولائی میں سینٹ فرمیں کے جشن کے موقع پر پمپولونا کے شہر میں بیلوں کی ایک بڑی تعداد، بیلوں کے باڑے سے نکال کر مویشیوں کی منڈی کی سمت چھوڑی جاتی ہے۔ جہاں سے انہیں بیل لڑائی کے لئے لے جایا جاتا ہے۔
چودھویں صدی سے جاری اس رسم کی شروعات یوں ہوئی کہ بیلوں کو منڈی میں لے جانے کے لئے گاڑی چھکڑوں کی کمی کی وجہ سے انہیں شہر کی سڑکوں سے ہنکانے کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ اب پورا شہر ان بیلوں کا پیچھا کرکے شور مچا کر انہیں ہنکاتا ہے اور یوں جشن مناتا ہے۔ جلی کاٹی کی طرح کوئی شخص اس جشن میں ہلاک نہیں ہوتا اور نہ کسی بیل کا جانی نقصان ہوتا ہے۔