تحریر: ابن ریاض، سعودی عرب
جب سے ملک میں امن و امان کی صورتحال تشویش ناک ہوئی ہے، سکولوں، کالجوں اور جامعات کے نصابی و تفریحی دورے شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔ یہ دورے بچوں کی ذہنی و جسمانی نشونما کے لئے بہت اہم ہوتے تھے۔ تاہم اب امن و امان کی صورتحال کے پیشِ نظر کوئی بھی ادارہ ایسا کوئی خطرہ لینے کو تیار نہیں کہ جس میں لینے کے دینے پڑ جائیں۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ جامعات اور دیگر ادارے کسی نامور شخصیت کو دعوت دیتے ہیں اور وہ اپنے شعبے کے حوالے سے اپنے تجربات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس سے طلبا کو نصابی طور پر تو ضرور فائدہ ہوتا ہے مگر تفریح والا عنصر پھر بھی غائب ہی رہتا ہے۔ جب ہم انجنئرنگ یونیورسٹی ٹیکسلا کے طالب علم تھے تو ان دنوں ڈاکٹرثمر مبارک کو جامعہ نے مدعو کیا تھا۔ انھوں نے ہمیں چاغی کے دھماکوں کے متعلق بتایا کہ کیسے انتہائی کم وسائل اور افرادی قوت کے ساتھ پاکستان نے اپنے جوہری پروگرام کا آغاز کیا، اس میں کیا کیا مسائل اور رکاوٹیں پیش آئیں اور ہماریمحب وطن سائنسدان اور انجنئر ثابت قدمی سے اپنے مقصدپر ڈٹے رہے اور اس کا نتیجہ پاکستان کی دنیا میں ساتویں جوہری طاقت کی صورت میں نکلا۔۔
اس میں کلام نہیں کہ ایسے دوروں سے بھی طلبائ کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے مگر اس میں قباحت یہ ہے کہ یہ لوگ یک فنے ہوتے ہیں یعنی کہ ایسے پیشہ وراپنے فن کے تو بیشک ماہر ہوتے ہیں مگر اس سے باہر بالکل صفر۔ پی ایچ ڈی ڈاکٹر بال کاٹنے کے فن شریف سے نابلد اور ایم بی بی ایس ڈاکٹرز میں کوئی شاید ہی ہو گا جو کہ گاڑی کا ٹائر تبدیل کر سکے۔ اچھی اورصاف سبزی تو شاید ہی کوئی گھر لا سکے اور میٹھا خربوزہ تو لانا ایسے ہی ہے جیسا کہ اندھے کے ہاتھ میں بٹیر آنا۔ ان میں سے کسی بھی کام کو معمولی نہ جانئیے اور اگر کبھی پروفیسر صاحب کی نصف بہتر سے بات چیت ہو تو پتا چل جائے گا کہ پروفیسر صاحب جو جامعہ میں بچوں کو نیوٹن کے قوانین، ڈارون کے اصولوں، آنکھ کے آپریشن کی باریکیوں، شیکسپیئر کے ڈراموں، آغا حشر کے ڈراموں اور ایسے ہی دوسرے موضوعات پر لیکچر دیتے ملیں گے، گھر میں بجلی کا بلب بھی تبدیل نہیں کر سکتے۔
جامعہ کراچی اس معاملے میں سب سے بازی لے گئی کہ اس نے ملک کی معروف اور ہمہ جہت شخصیت ‘ایان علی’ کو مدعو کر لیا۔ ایسا نہیں کہ ایان صاحبہ زلف تراشی کی ماہر ہیں یا وہ ٹائروں کے پنکچر لگانا جانتی ہیں مگر بہرحال وہ کئی موضوعات پر اپنے وسیع تجربات سے ناظرین کو محظوظ کر سکتی ہیں ( علاوہ اپنی شخصیت کے)۔
ایان علی کو بحیثیت ماڈل تو سب ہی پہچانتے ہیں سو ہمارا گمان ہے کہ دوران لیکچر انھوں نے ریمپ پر والک کرنے کے طریقوں سے آگاہ کیا ہونا یقینًا۔ یہ بھی بتایا ہونا کہ پندرہ انچ سے اونچی ہیل پہننے سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے صحت پر تو جو مضر اثرات ہوتے ہیں وہ تو عیاں ہے مگر ریمپ پر خود کو چلتے ہوئے قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے اور گرنے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
ماڈلنگ سے بات آگے نکلی ہو گی تو فیشن پر گئی ہو گی۔ کس پیشی پر کس قسم کا لباس زیادہ موزوں رہے گا، ان سے بہتر کون جانتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تمام طالب علم ایسے نہیں کہ انھیں پیشی کی نوبت آئے تو یقینًا وہ موسم کی مناسبت سے بھی لباسوں پر اپنی رائے دے سکتی ہیں اور ایسے لباس پر بھی کہ جسے پہن کر بھی کچھ بھی ڈھکا ہوا نہ ہو۔
جیل کی بھی سیر کر چکیں تو اس پر بھی اپنے تجربات سے آگاہ کر سکتیں کہ جیل میں کون کون سے فیشن کرنے کی اجازت ہے۔ کیا وہاں بھی میک اپ ماہرین آ سکتے ہیں؟ یا وہ ایسے میک اپ کی خود ہی ماہر ہیں؟ جیل میں کون کون سی خامیاں ہیں اور انھیں مزید کونسی سہولتیں مہیا کی جا سکتی تھیں؟عدالتوں میں جانے سے یہ بھی بتا سکتیں کہ ملک میں انساف کی صورتحال کتنی ابتر ہے۔عدالتوں میں کیا کیا بہتری کی گنجائش ہے اور منصف کے سامنے کیسے پیش ہونا چاہیے کہ پیشی پر پیشی ملتی رہے۔
سیاحت بھی خوب کی ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت، معاشرت، سیاست، حدوداربعہ انھین ازبر ہوگا اور یہ بھی ہر ملک مین اچھی زندگی گزارنے کے لئے پاکستان سے کم از کم کتنی رقم لے جانی چاہیے۔
ملک کے چوٹی کے سیاستدانوں بلکہ شخصیات سے ان کے رابطے ہیں وہ سیاست پر بھی ان کی رائے یقینًا مستند ہو گی۔معیشت پربھی بے لاگ تبصرہ کر سکتی ہیں۔
رقم کی خرد برد کے متعلق بھی طلبا کی رہنمائی کر سکتی ہیں کہ پہلے وہ کیسے رقم نکال لے جاتی تھیں اور اس بار ان سے کیا غلطی ہوئی جس سے کہ نئی نسل کو بچنا چاہیے تا کہ قانونی گرفت کا احتمال ہی نہ رہے۔ یہ تو ہم نے چند مثالیں دی ہیں ورنہ کون سا ایسا شعبہ ہے کہ جس میں وہ علم و حکمت کے دریا نہ بہا دیں
سارے عالم پہ ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اتنی کم عمری میں اتنے دشتوں کی خاک چھان بیٹھی ہیں اور اتنے علوم پر دسترس۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ علم کسی کی میراث نہیں۔ علوم پر ان کی مہارت و دسترس اپنی جگہ مگر ہماری رائے تو یہ ہے کہ انھیں بولنے کی نوبت ہی نہ آئی ہو گی۔ انھیں اسٹیج پر دیکھتے ہی دیکھنے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ہوں گیں اور وہ جو دوران لیکچر جمائیاں روکنے کی کوشش کرتے رہتے تھے اب آنکھ بھی نہ جھپکتے ہوں گے کہ کہیں نظارے سے محروم نہ رہ جائیں سیلفیوں سے تو ہمارے اندازے کو تقویت ملتی ہے۔
طلبا کے علم میں کس قدر اضافہ ہوا، اس سے قطع نظر ان کی تفریح تو ہو ہی گئی۔ جامعہ کی انتظامیہ اس پر مبارکباد کی مستحق ہے۔یوں بھی طلبا کا حق ہے کہ وہ اپنے قومی ہیروز سے ملیں۔ ایسے لوگ ہی تو ہمارے ہیرو ہیں۔ انھیں ہی تو ہم جانتے ہیں ورنہ ہم میں سے اپنے شعبے کے کوئی پانچ دس لوگوں کے نام بتا کے تو دکھائے۔
تحریر:ابن ریاض، سعودی عرب