تحریر : عبدالرحمن عزیز
دے گیا نذرانہ وہ جمہوریت کو جان کا وہ جر ی انسان ، مجاہد تھا بلوچستان کا مرتے دم تک آمران ِ وقت سے لڑ تا رہا قتل شمس الدین کا ہے قتل ہر انسان کا جس نے ایمان کو نہ بیچا سیم و زر کے واسطے مرثیہ ہے میرے لب پر اس عظیم انسان کا , انسان نے جب سے دنیا میں قدم رکھا ہے اور جب سے حق کا فانوس روشن کیا گیا ہے اس وقت سے طاغوتی جھکڑ اِس حق کے فانوس کو گل کر نے کے لئے سر گرم عمل رہے ہیں ۔ اہل باطل نے اہل حق کے وجود تک کو گوارہ نہیں کیا ۔چشم ِ فلک نے بہت سے مناظر دیکھے اہل ِ حق نے جس آب و تاب سے اپنا لو ہا منوایا اور اہلِ باطل کو بے نقاب کر نے کے لئے جو کر دار اداکیا وہ کسی سے مخفی نہیں ۔ اہلِ طاقت نے ہمیشہ آگ جلائی ہے اور اہلِ صداقت نے ہمیشہ بلا چوں چرا اِس میں چھلانگ لگائی ہے اہلِ طاقت نے تختہ دار بنا ئے تو اہلِ صداقت نے انہیں چوما، ہتھکڑیاں بنا ئیں تو انہیں اپنے ہا تھوں کا زیور سمجھا ، بیڑیاں بنائیں تو انہیں پائوں کی زینت جانا۔برصغیر میں انگریزنے اسلام کو مٹانے کے لئے سر توڑ کوشش کی ، قِسم قِسم کے منصوبے بنا ئے لیکن اکابر علمائے حق نے نہایت بے جگری سے ان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کیا اور ان کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملادیا۔ اہل حق کو اللہ تعالیٰ نے استقلال کا ہتھیار عطا فرمایا ہے اس سے ٹکر لینے والی صدیوں کی جمی ہو ئی بڑی مضبوط حکومتیں پاش پاش ہو گئیں ۔ پا کستان اسلام کے نا م پر حاصل کیا گیا ۔ اور اس پا کستان کے لئے ہزاروں لوگوں نے خون کے نذرانے پیش کئے ، ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں ، ہزاروں بچے یتیم ہو گئے ۔ لوگو ں نے اپنے معصوم بچوں کو تڑپنا برداشت کر لیا لیکن اسلام کے دامن پر داغ نہ آنے دیا اُن کی تمنا یہ تھی کہ مسلمانوں کی ایک علیحدہ آزاد مملکت ہو جس میں اسلام کا بول بالا ہو ، لیکن جب پا کستان بنا تو کیا ہوا اِسے مسلم لیگی شاعر نفیس خلیلی نے یوں نظم بند کیا
یہ بیت المال پاکستان کا ہے
یہ نقشہ آپ کے ایوان کا ہے
یہی تھی عہدِ ما ضی کی حکومت
حیا سوزی ، ریاکاری ، خصومت
وہی انگریز اب تک حکمراں ہے
وہی گردوں ، وہی دورِ زماں ہے
وہی قسمت، وہی چکربدستور
وہی سرمایہ دار اورخونِ مزدور
تمہاری خدمتیں اے چشم بدور
کہیں سا لے ، کہیں بہنوئی ما مور
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ پا کستان میں اسلام کے قا نون کی بجا ئے انگریز کے قوانین جا ری ہو ئے بلکہ برسرِ عام اسلام کی تو ہین کی گئی ۔ اہلِ حق پر ظلم ڈھائے گئے ۔ اسلام کو مٹانے کی ایک ہی صورت تھی کہ اہلِ حق یعنی علماء کو تہ تیغ کر دیا جا ئے ۔لہٰذا جواِ ن کے عزائم میں رکاوٹ بنے ہو ئے تھے انہیں را ستے سے ہٹانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ۔ انہی علماء میں میر ے ممدوح مولانا شمس الدین شہید بھی ہیں جنہیں حق گوئی و بے باکی کے جرم میں 13مارچ 1974ء کوشہید کر دیا گیا۔ ایک عا لم، ایک صالح نوجوان مارا گیا جرم حق گوئی میں حق کا تر جمان مارا گیا سید شمس الدین شہید 21جمادی الاولیٰ 1364ھ بمطابق 1945ء ہفتہ کی شب اس عالم ِ رنگ وبو میں تشریف لا ئے ۔ سید شمس الدین کا شجرہ نسب سیدنا حسین سے جا ملتا ہے ان کا شجرہ نسب یہ ہے مولانا سیدمحمدشمس الدین بن مولانا محمد زاہد بن حاجی محمد رفیق بن عبدالحق ،بن ہیبت بن اٹل بن روزی بن عبدللہ بن عبدالرسول بن محمد عثمان بن محمد عمر بن ابرا ہیم بن ابنِ حطمان بن فالی بن حریف شہید بن عبداللہ بن محمد تور بابا بن سید غورہ یار نمائی بن یار محمد بن احمد بن غنم فور بادشاہ بن قان بن قابین بن رحال بن سید عبدالرشید بن کعب المعروف طبائی بن اسما عیل بن سید عابد بن سید زین الدین بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن سیدنا حسین بن سید نا علی المرتضیٰ (بحوالہ ،، رجل رشید،، از مولانا زاہد الراشدی) سید شمس الدین نے سات سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز اپنے والد محترم سے کیا صرف ونحو کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ سکول کی تعلیم کا سلسہ بھی جا ری رکھا 1960ء میں گورنمنٹ ہا ئی سکول فورٹ سنڈیمن سے پا س کیا اس کے بعد دارلعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں دو سال تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد کر اچی میں دو سال تک تعلیم حاصل کی پھر مدرسہ عربیہ مخزن العلوم میں حافظ الحدیث وا لقرآن مولانا محمد عبداللہ درخواستی سے قرآن مجید کی تفسیر پڑھی تعلیمی دور سے ہی مولانا شمس الدین کے سیاسی رجحانات با لکل واضع تھے اور عظیم اساتذہ کی سر پرستی میں انہوں نے کاروانِ ولی اللہی اور قافلہ حق و صداقت کی عظیم خدامات اور بے مثال قر بانیوں سے آ گاہی حاصل کر لی تھی اور اس قافلہ کے ساتھ اپنی زندگی کو وابستہ کر لیا تھا جس کی قیادت مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود کر رہے تھے ۔ دوران تعلیم آپ جمعیت علمائ اسلام کے تبلیغی پر وگراموں میں ذوق اور شوق کے ساتھ جا یا کر تے تھے۔
حصول تعلیم کے بعد گھر واپس گئے اور اپنے پرانے خاندانی تعلیمی مر کز مکی مسجد میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ اس دور میں بھی آپ جمعیت طلباء اسلام سے وابستہ رہے اور ایک مرحلہ پر جمعیة طلباء اسلام بلوچستان کے صدر بھی رہے ، 1970ء کے انتخابات کے موقع پر با ضابطہ جمعیت علماء اسلام میں شامل ہو گئے اور فورٹ سنڈیمن کے صوبائی حلقہ انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ، اس علا قہ میں جو گیزئی خاندان کا سیاسی تسلط کا فی عرصہ سے قائم تھا اور اس نشست پر نواب تیمور شاہ جوگیزئی اُمیدوار تھے ۔آپ کو انتخاب سے دستبردار کرانے کیلئے کا فی کوشش کی گئیں مگر آپ نے دستبردار ہو نے سے انکار کر دیا یہ عجیب سیاسی جنگ تھی ایک طرف سرمایہ دار اور وسائل کی ریل پیل تھی اور دوسری طرف جمعیت علماء اسلام کے اُمید وار وں کے پاس سوائے افلاص اور جذبہ ء عمل کے کچھ نہ تھا اس کے بعد مولانا شمس الدین نے نواب جوگیزئی کو بھاری اکثریت سے ہر ادیا جمعیت علماء اسلام کا پیغام ہے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کا نفاذ۔
اسی پیغام کو لے کر مولانا شمس الدین ایوانوں میں پہنچ گئے ۔ آپ نے ایک مر تبہ گور نر بلوچستان لیفٹینٹ جنرل ریاض حسین کے دربار میں نماز کا وقت ہو نے پر اذان کی آواز بلند کر کے گورنر اور سرداروں کو حیران کر دیا ۔ گورنر نے لوگوں سے پو چھا یہ کون دیوانہ ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ جمعیت علما ء اسلام کے نو منتخب صوبائی ممبر مولانا شمس الدین ہیں حکوت سازی کے وقت بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کے مابین معاہدہ طے پا گیا۔ اور ان دونوں پارٹیوں نے مل کر حکومت بنائی ۔ دوسری طرف صوبہ سرحدمیں مفکرِ اسلام مولانا مفتی محمود نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا اور بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل نے وزارت اعلیٰ کا حلف اُٹھایا ۔ اس مو قع پر مولانا شمس الدین کو بلوچستان اسمبلی نے متفقہ طور پر ڈپٹی سپیکر منتخب کر لیا ۔ اسی دوران پو رے ملک میں جے یو آئی کی تین سالہ تنظیم سازی کا آغاز ہو چکا تھا۔
مرکزی ناظم انتخابات مولانا مفتی عبدالواحد مدظلہ ، نے مولانا شمس الدین کو بلوچستان میں نا ظم انتخاب کی حیثیت سے تنظیم ِ نو کی ذمہ داری سونپ دی آپ نے پو ری توجہ ، دلچسپی اور محنت کے ساتھ مختلف حلقوں میں جمعیة کی رکنیت سازی اور ابتدائی انتخابات کی نگرانی کی۔ یکم اپریل 1973ء کو جب صوبائی جمعیت علماء اسلام کی مجلسِ عمومی کا انتخابی اجلاس ہو ا تو آپ کی مخلصانہ کوششوں کی وجہ سے آپ کو صوبائی جمعیت کا امیر منتخب کرلیا گیا ۔ اس کے بعد آپ زندگی کے آخری لمحات تک جمعیت کے پلیٹ فارم کو سیاسی وتنظیمی لحاظ سے مظبوط مسیحکم بنانے اور صوبائی و قومی سیاست میں جمعیت علماء اسلام کو ایک اہم فعال جماعت کے طور پر متعارف کر انے میں مصروفِ عمل رہے ۔ بلا چستان پر قادیانیوں کی پر انی نظر ہے اور قادیانی وہاں آئے روز فتنہ انگیزیاں پھیلا تے رہیتے ہیں ۔1973ء میں قادیانیوں نے بلوچستان میں قرآن مجید کے تحریف شدہ نسخے تقسیم کرنا شروع کیے تو عوام میں اشتعال پیدا ہو گیا یہ نسخے جب فورٹ سنڈیمن کے علا قے میں بھی تقسیم کیے گئے تو مولانا شمس الدین یہ بات گوارہ نہ کر سکے اور انہوں نے مقامی سطح پر بھرپور احتجاج کیا ۔ضلع ژوب میں زبردست احتجاجی جلسے اور جلوس ہو ئے نتیجہ ً اندھا دھند گرفتاریاں ہو ئیں مسلمان سراپا احتجاج بن گئے علماء پر بے پناہ تشدد کیا گیا۔
مولاناشمس الدین کو نظر بند کر دیا گیا لیکن یہ تحریک چلتی رہی بالاآخر فورٹ سنڈیمن کے غیور عوام کی مخلصانہ جدوجہد اور مولانا شمس الدین شہید کی جرآت مندانہ قیادت کی بدولت حکومت کومجلس عمل تحفظ ختم نبوت اورفورٹ سنڈیمن کے عوام کے تمام مطالبات تسلیم کرنا پڑے ، قادیانیوں کا تقسیم کردہ لٹریچر ضبط کر لیا گیا ۔قادیانیوں کو ضلع ژوب (فورٹ سنڈیمن ) سے نکال دیا گیا ۔ آج بھی ژوب پاکستان کا واحد ضلع ہے جہاں قادیانیوں کا داخلہ بند ہے ۔ 29سالہ خوبرو، خوش اخلاق ، جری اور بے باک نوجوان مولانا شمس الدین کو 13مارچ 1974ء کو اس وقت بے دردی سے شہید کر دیا گیا جب وہ کوئٹہ سے فورٹ سنڈیمن جا رہے تھے ۔ اس طرح جاگیرداروں ، سرمایاداروں اور حکومت ِ وقت کی آنکھ میں کھٹکنے والا نوجوان ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے چلا گیا مگر کیا وہ بھلایا جاسکا ۔ ہرگز نہیں اس کی یاد آج بھی جمعیة علماء اسلام کے کا رکنوں کے دلوں میں تازہ ہے اور اس کے پیغام ِ حریت پر آج بھی جمعیة علماء اسلام کا ہر نوجوان کا ر بند ہے۔
شمسِ دین، شمسِ وطن ،شمسِ بلوچستان
خادمِ اسلام تھا ۔۔۔۔ ہمدرد پاکستان تھا
شیخ تھا ، سید تھا، مرزا تھا نہ وہ افغان تھا
وہ مسلمان تھا فقط اور صاحب ِ عرفان تھا
وہ کسی جھو ٹے نبی کو مان سکتا ہی نہ تھا
اس کے دل میں مصطفےٰ کا عشق تھا ایمان تھا
تحریر : عبدالرحمن عزیز