تحریر : علی عمران شاہین
مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے ایک بار پھر کشت و خون کا بازار انتہائی گرم کر دیا ہے۔ ویسے تو تقسیم ہند سے لے کر آج تک اور خصوصاً جولائی 1986ء سے کشمیری قوم ہر روز جبروابتلا کے نئے سے نئے دور کا ہی سامنا کر رہی ہے۔ دور قدیم سے لے کر دور جدید تک کے ظلم و ستم اور جبرواستبداد کا وہ کون سا ہتھکنڈا ہے جو بھارت نے کشمیریوں کے خلاف نہیں آزمایا لیکن کشمیری قوم بھی ایسی مٹی کی بنی ہوئی ہے کہ جس نے ایک دن بھی بھارت کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ 13فروری کے دن بھارتی فوج نے ضلع کپواڑہ میں ایک گھر کا گھیرائو کر کے 5نوجوانوں کو شہید کر ڈالا۔ یہ نوجوان بھارتی قبضے سے آزادی کیلئے گھر بار چھوڑ کر برفانی پہاڑوں اور جنگلوں، کھائیوں کو اپنا ٹھکانہ بنانے پر مجبور ہوئے تھے۔
بھارتی فوج ان نوجوانوں کو شہید کرنے کے بعد فتح کے شادیانے بجا رہی ہے کہ اس نے بہت بڑا معرکہ سر کر لیا ہے حالانکہ آزادی کی منزل پانے کے لئے یوں شہادتوں کو گلے لگانے والوں کی تعداد کبھی بھی کم نہیں ہوئی ہے۔ بھارت کو چونکہ اسلام، پاکستان اور کشمیریوں کے خلاف ساری دنیا کی حمایت حاصل ہے، اس لئے وہ کشمیری قوم پر ہر طرح کا ظلم روا رکھنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ 9فروری کے روز کشمیری قوم نے 3سال پہلے انتہائی بہیمانہ طریقے سے قتل کئے گئے افضل گورو کے جسد خاکی کی واپسی کیلئے مقبوضہ کشمیر بھر میں ہڑتال کی تھی۔ افضل گورو کو بھارت نے 3سال پہلے اس کے بقول دہلی پارلیمنٹ حملہ کی پاداش میں تہاڑ جیل میں پھانسی دے کر وہیں دفن کر دیا تھا۔
افضل گورو کی والدہ، اہلیہ اور ایک ننھا بچہ ان کے جسد خاکی اور ان کے زیراستعمال سامان کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن دنیا کی کوئی طاقت، تنظیم یا ادارہ ان کا اتنا معمولی سا مطالبہ پورا کروانے کو تیار نہیں۔ آخر وہ دنیا کا کون سا قانون اور ضابطہ ہے جس کے تحت بھارت کشمیریوں کو عدالتی قتل کے ذریعے پہلے پھانسی دیتا اور پھر جیل میں دفنا دیتا ہے اور ان کی لاش بھی لواحقین کے حوالے نہیں کرتا اور اگر کوئی لاش کا مطالبہ کرے تو اسے گولیوں سے چھلنی کیا جاتا ہے۔ 9فروری کی آمد سے پہلے کشمیریوں کے خلاف بھارتی فورسز نے کریک ڈائون شروع کر کے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا شروع کر دیا تھا۔ اس سال بھی 9فروری کے روز بھی کتنے ہی مقامات پر کشمیریوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں طلبہ کی ایک تنظیم نے اجازت لے کر افضل گورو کے عدالتی قتل کے حوالے سے تصویری نمائش اور مظاہرے کا اہتمام کیا تھا۔ بھارتی فورسز نے انہیں وہاں بھی برے طریقے سے مارا پیٹا اور پھر طلبہ کے خلاف مزید سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے ان پر غداری کے مقدمات درج کرنے کے ساتھ تعلیمی اداروں سے ہی نکالنے کا اعلان کر دیا۔ کہنے کو تو بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیتا ہے لیکن وہاں مظلوم اقوام خصوصاً کشمیریوں کو زبان کھولنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ ظلم کی حد تو دیکھئے کہ بھارت ایک طرف تو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتے نہیں تھکتا لیکن انہی کشمیریوں کے بچوں پر اپنے ملک میں جہاں وہ تعلیم کے دروازے بند کرتا ہے تو وہیں انہیں جگہ جگہ قتل کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔ 14 فروری کو اسی بھارت کی فوج نے ایک بار پھر ایک یونیورسٹی طالبہ اور یونیورسٹی طالب علم کو گولیوں کی بارش سے شہید کر کے دیا۔
علاقہ پلوامہ میں بھارتی فوج نے مجاہدین سے معرکہ آرائی میں آزادی کیلئے مظاہرہ کرنے والے عام کشمیریوں پر گولیوں کی برسات کر ڈالی تھی۔ یہاں بے پناہ گولیوں اور گیس شیلنگ کی زد میں آ کر درجنوں افراد شدید زخمی ہوئے تو13کی حالت اس وقت انتہائی نازک ہے۔ اس کھلی دہشت گردی کے خلاف 15فروری کو سارے مقبوضہ کشمیر میں مکمل ہڑتال کی گئی تو دوسری طرف ساری حریت قیادت کو بھارتی فورسز نے قید کر ڈالا۔ گزشتہ سارے ہفتے کے دوران مقبوضہ وادی کے کونے کونے میں ایسے ہی حالات رہے۔ ظلم کی انتہا کو چھوتے حالات کو دیکھئے کہ کشمیری رہنما مقبول بٹ کی شہادت کے 32سال مکمل ہونے پر جہاں مکمل ہڑتال ہوئی وہیں بھارتی فورسز نے مقبول بٹ کے آبائی گائوں ترہگام کپواڑہ پر چڑھائی کر ڈالی اور وہاں مقبول بٹ کے بھائی، انتہائی ضعیف والدہ کو زبردست ہراساں کیا۔
انہی حالات کے پیش نظر بھارت کے ہاتھوں سسک سسک اور تڑپ تڑپ کر مرنے کے بجائے کشمیری قوم سر پر کفن باندھ کر میدانوں میں اتری ہوئی ہے۔ بھارتی فورسز اور ایجنسیاں دن رات اس بات کا واویلا کر رہی ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان بڑی تعداد میں مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان نوجوانوں میں وہ طلبہ بھی شامل ہیں جنہیں بھارت میں ستا ستا کر تعلیم چھوڑنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔9 فروری کو نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں آزادی کے نعرے لگنے کے بعد بھارت کی کئی ریاستوں میں وزیر اعظم خصوصی وظیفہ اسکیم کے تحت سکالرشپ پر تعلیم حاصل کرنے والے 14 ہزار کشمیری طالب علموں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا ہے کیوں کہ بھارتی حکومت نے ان کشمیری طالب علموں کے سکالر شپ منسوخ کر دیے ہیں جبکہ ان کے تعلیمی اداروں نے ان سے فیس طلب کر لی ہے۔
بیرون ریاست کالجوں میں وزیر اعظم اسکالر شپ کے تحت زیر تعلیم طلبہ کے نام کئی کالجوں نے نوٹسز جاری کئے ہیں۔ وزیر اعظم خصوصی وظیفہ اسکیم کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے سروں پر کالج بدر ہونے کی تلوار لٹک رہی ہے۔ انہیں کہا گیا ہے کہ اگر انہوں نے فیس جمع نہ کرائی تو انہیںبے دخل کیا جائے گا۔ان طلبہ میں سے کئی ایک نے مختلف انجینئرنگ اور دیگر پیشہ وارانہ کورسوں میں6سمسٹر بھی پاس کئے ہوئے ہیں۔ کئی طلبہ کو کالج انتظامیہ کی طرف سے ہوسٹلوں سے بھی نکل جانے کو کہا جا رہا ہے اور انہیں فیس جمع کرنے کی وارننگ دی جارہی ہے۔پنجاب میں رایت بہرا کالج آف انجینئرنگ موہالی اور آدیش کالج موہالی نے سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے اپنا موقف مزیدسخت کیا ہے اور کشمیری طلبہ کو بے دخل کرنے کی دھمکی دی ہے جو گزشتہ 3 برسوں سے ان کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔ کالج منتظمین کا کہنا ہے کہ فیس کے بغیر مزید ان طلبہ کو اب کالج برداشت نہیں کر سکتا طلبہ فیس جمع کرائیں وگرنہ انہیں کالجوں سے بے دخل کیا جائے۔
جب طلبہ کو اس قدر ستایا اور تڑپایا جائے گا تو حالت کیا ہو گی؟ یہ تو نوجوانوں کی حالت زار ہے جبکہ کشمیری پولیس کے اہلکار بھی بڑے پیمانے پر ہتھیاروں سمیت فرار ہو کر مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں جس پر بھارت کو شدید تشویش ہے۔ گزشتہ ہفتے جنوبی کشمیر کے کئی علاقوں میں اس وقت زبردست کریک ڈائون کیا گیا جب کشمیر پولیس کا سپیشل پولیس آفیسر شکور احمد پرے جو اپنے تین ساتھیوں سمیت چار بندوقیں لے کر مجاہدین سے جا ملا تھا۔ شوپیاں کے علاقے میں موجود اس آفیسر نے بھارتی فورسز کا انتہائی سخت کریک ڈائون بھی توڑا اور وہ اسلحہ سمیت وہاں سے نکل کر دور جنگلوں میں مجاہدین سے ملنے میں کامیاب ہو گیا۔
مقبوضہ کشمیر میں ہر روز ظلم و ستم بڑھ رہا ہے تو ایسے حالات میں پاکستان، پاکستانی سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی عملی محافظ اس مظلوم ترین قوم کا ساتھ دینے کے لئے آگے آئیں۔ ہمارے ہاں بیٹھے جبری فلاسفر اور دانشور اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کئی بار کہتے ہیں کہ عرب اور مسلم دنیا نے کشمیر کے مسئلہ پر کبھی پاکستان کا کھل کر ساتھ نہیں دیا جبکہ ہم انہیں اپنا دوست سمجھتے ہیں۔ حالانکہ صورت حال اس کے بالکل الٹ ہے کیونکہ مسئلہ کشمیر کو جب تک پاکستان سے ہی پوری سنجیدگی، قوت اور تمام تر وسائل استعمال کر کے اٹھایا نہیں جائے گا تو باقی دنیا کیسے ہمارا ساتھ دے گی۔
مقبوضہ کشمیر میں اتنے کھلے عام مسلسل ظلم و ستم اور جوروجبر کے بعد بھی ہمارے اقتدار کے ایوانوں اور اقتدار کے لئے تڑپتے سیاستدانوں کی زبانوں سے کوئی لفظ سننے کو نہیں مل رہا اور ہم دوش ان عرب مسلم ممالک کو دیتے ہیں کہ جو ہماری خاطر طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے ساری دنیا سے ٹکر لے لیتے ہیں اور پاکستان کو بچانے کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس وقت پاکستان کشمیر کو اپنی اول و آخر ترجیح بنائے اور پوری سنجیدگی سے تحریک آزادی کو آگے بڑھائے۔
تحریر : علی عمران شاہین
برائے رابطہ،0321-4646375