تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانے پر اقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کے صدر کو خط لکھا ہے جس میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے والے بل پرتحفظات ہیں ۔بھارت کے سرکاری نقشے میں مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ دکھانا سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی ہے ۔ قراردادوں کے مطابق مقبوضہ کشمیر متنازعہ علاقہ ہے۔اہمباتیہہے کہ اس متنازعہ بل کے تحت بھارت کشمیری عوام اور جماعتوں کو بھارتی قانون کے تحت سزائیں دے سکے گا۔ نتیجہ کے طور پر مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر مزید تیز ہو جائے گی۔ پہلے ہی گذشتہ ماہ سے آزادی کی تحریک زور پکڑ چکی ہے۔
23 مارچ کو ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہرایا گیا اور پاکستان کو قومی ترانہ بھی پڑھا گیا۔ سرینگر میں حریت رہنا آسیہ اندرابی کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس میں سینکڑوں حریت پسندوں نے شرکت کی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگائے اور پاکستان سے بھر پور محبت کا اظہار کیا گیا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی پولیس نے جگہ جگہ ناکے لگا دئیے اور کشمیریوں کو پاکستان کے حق میں ریلی نکالنے کے لیے روکنے کی کوشش کی۔
سرینگر کے مختلف علاقوں میں پاکستان پرچم لہرانے کے علاوہ بینرز اور پورٹریٹ بھی آویزاں کیے گئے تھے جن میں واضح الفاظ میں یہ تحریر تھا کہ ”پاکستان سے رشتہ کیا ، لاالہ الا اللہ“”کشمیر بنے گا پاکستان“۔ سیدہ آسیہ اندرابی کو مقبوضہ کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے حق میں سرگرمیوں کی پاداش میں کئی مرتبہ نظر بند قید بھی کیا جا چکا ہے۔ادھر نئی دیلی میں 23 مارچ کے حوالے سے پاکستانی سفارت خانے میں منعقدہ تقریب میں حریت رہنماوں کو شرکت سے روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اس کے باوجود بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی اور دیگر حریت رہنماوں نے اس میں شرکت کر کے پاکستان سے یک جہتی کا اظہار کیا ۔ اگلے روز حبہ کدل سرینگر میں بھارتی سنٹرل ریزو پولیس فورس کے اہلکار شراب کے نشے میں دھت ہو کر اپنے کیمپ سے باہر نکل آئے اور راہگیروں اور دکانداروں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور دکانوں میں توڑ پھوڑ کے علاوہ گاڑیوں کے شیشے توڑ دئیے۔
بعض پولیس اہلکار گھروں میں گھس گے اور خواتین اور بچوں کو ہراساں کیا۔ ان کے تشدد سے چار افراد زخمی ہوئے ۔ ادھر ائت ناگ میں ایان حمید شاہ اور ایک اور بچے کے لاپتہ ہونے پر سینکڑوں احتجاجی مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں بیسیوں افراد زخمی ہوئے متعدد کو حراست میں لے کر تھانوں میں بند کردیا گیا۔ 25مارچ کو بھارتی پولیس نے مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم لہرانے کے الزام میں 10 سال کے لڑکے محمد اسماعیل خان کو گرفتار کر لیا جس کا تعلق ضلع بانڈ ی پورہ سے ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تمام تر بھارتی مظالم کے باوجود حریت پسند کشمیریوں نے ہندو سامراج سے آزادی حاصل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ بھارتی حکومت لاکھ کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کا راگ الاپتی رہے ۔ کشمیریوں نے اپنے خون سے ثابت کردیا ہے کہ کشمیر 1947 کی تقسیم برصغیر کا نا مکمل ایجنڈا ہے بھارت وادی کشمیر پر اپناناجائز قبضہ مزید بر قرار نہیں رکھ سکتا اور جلد اسے رسوا ہو کر اس وادی جنت نظیر سے نکلنے کی کڑوی گولی نگلنی پڑے گی۔اقوام متحدہ کی 13اگست 1948 اور 5جنوری 1949 کی قرار دادیں جو کشمیریوں کے حق خودارادیت کی ضامن ہیں۔بھارت نے وہ تسلیم کی تھیں اور بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے بھارتی لوک سبھا میں کھڑے ہو کر اعلان کیاتھا کہ کشمیری عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔
تاریخی، جغرافیائی اور ثقافتی ہر لحاظ سے مسلم اکثریتی خطہ جموں و کشمیر پاکستان کا حصہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے اکتوبر 1947 میں فوجی جارحیت سے قبضہ کر لیا تھا جسے برقرار رکھنے کے لیے وہ اقوام متحدہ کی قرادداروں کے مطابق جموں کشمیر میں رائے شماری کرانے سے انکاری ہے۔پاکستان نے ہمیشہ عالمی ادارے کی قراردادوں پرعملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے ۔ چنانچہ 23مارچ کو سید علی گیلانی اور دیگر حریت رہنماوں نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر سے ملاقات میں امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان جو کشمیر کاز کی مدد کرتا آرہا ہے تنازع کشمیر کے حل تک کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ یا سین ملک نے کہا کہ قربانیاں ہمیں کٹھن حالات میں تحریک آزادی کی خار زار راہوں پر چلنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
25مارچ کو ایک بھارتی عدالت نے غیر قانونی طور پر نظر بند سینئر حریت رہنما اور جموں وکشمیر مسلم لیگ کے چیئرمین مسرت عالم بٹ وک 5روزہ پولیس ریمانڈ میں دے دیا۔ انہیں ایک جھوٹے مقدمے میں بڈگام کی ایک عدالت میں پیش کیا گیا جس سے ریمانڈ لے کر انہیں بارہ مولہ سب جیل منتقل کر دیا گیا ۔مسئلہ کشمیر پربھارتی ہٹ دھرمی کے باعث گزشتہ 69 سال سے خطے کا امن درہم برہم ہے اور دونوں ملکوں میں 5جنگیں ہو چکی ہیں۔
مئی1998 میں جب بھارت اور پاکستان یکے بعد دیگرے ایٹمی دھماکے کر کے مسلمہ ایٹمی طاقتیں بن گے تو جموں و کشمیر کے حوالے سے عالم برادری کی تشویش میں یکایک اضافہ ہو گیا اور کشمیر نیوکلیئر فلیش پوائنٹ خیال کیا جانے لگا۔ تب امریکی صدر بل کلنٹن نے کشمیر کو کرہ ارض کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا تھا۔ پھر اگلے سال جب اس نیو کلیئر فلیش پوائنٹ پر کرگل کی جنگ چھڑی تو صدر کلنٹن نے دونوں ملکوں میں کھلی جنگ روکنے کے لیے ذاتی مداخلت کی ۔وزیراعظم نواز شریف کو واشنگٹن جانا پڑا اور کلنٹن کے بھارتی وزیراعظم واجپائی سے رابطے اور مفاہمت کے نتیجے میں حالات معمول پر آگے۔ اس وقت بل کلنٹن نے مسئلہ کشمیر کے حل میں ذاتی دلچسپی لینے کا یقین دلایا تھا جوطفل تسلی ہی ثابت ہوا۔ جنوری 2001 میں بل کلنٹن وائٹ ہاوس (ایوان صدر) سے رخصت ہو گے اور نو منتخب صڈر جارج واکر بش جونیئر نے برسر اقتدار آ کر ستمبر میں کروسیڈ (صلیبی جنگ) کا اعلان کر کے برطانیہ اور فرانس کی مدد سے افغانستان پر چرھائی کر دی۔یوں مسئلہ کشمیر ایک بار پھر پس منظر میں چلا گیا۔
امریکہ ، برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی منافقت دیکھئے کہ وہ اپنے عالمی سامراجی مقاصد کے تحت دوسرے ملکوں میں فوجی یا سیاسی مداخلت کرتے وقت تمام عالمی ضابطے بالائے طاق رکھ دیتے ہیں اور اس کے لیے جھوٹے عذر بھی گھڑ لیتے ہیں لیکن جہاں مسئلہ کشمیر کی بات ہو کمال عیاری سے کہہ دیتے ہیں کہ اسے پاکستان اور بھارت دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں۔
حالانکہ کشمیر متنازع علاقہ اور عالمی مسئلہ ہے جو 1948 سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ اقوام متحدہ کی عالمی کونسل کی قرار دادیں اس کی گواہ ہیں کہ جمو ں وکشمیر کے مستقبل کا فیصلہ رائے شماری کے ذریعے ہونا ہے مگر مغرب کا چہیتا بھارت ان قراردادیں پر عملدرآمد سے انکاری ہو کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سانحہ نائن الیون نے کشمیر کاز کو بے حد نقصان پہنچایا ہے۔
امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا تو گویا بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا۔ بھارت نے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ لی اور وہ دنیا کو یقین دلانے میں کسی حد تک کامیاب رہا کہ کشمیر میں جاری آزادی کی جدوجہد دہشتگردی کا شاخسانہ ہے۔ تاہم حریت پسند کشمیری عوام آٹھ لاکھ بھارتی فوج و پولیس کے تمام تر ظلم و تشدد اور خونریزی کے باوجود آزادی کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں اور لاکھوں کے پرامن مظاہروں سے دنیا کو جتلاتے رہتے ہیں کہ و ہ بھارتی سامراج سے بہر صورت آزادی لے کے رہیں گے۔
جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ، کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضے کے خلاف بھارت کے اندر سے بھی آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔22 فروری 2016 کو دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر مینن نے اپنے ایک لیکچر میں برملا کہا کہ ” یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ کشمیر پر بھارتی قبضہ غیر قانونی اور بلا جواز ہے اور اس حقیقت کو پوری دنیا جانتی ہے۔ ایسے میں وادی سے اٹھنے والے آزادی کے نعروں پر سیخ پا ہونا بے معنی ہے۔“ پروفیسر مینن نے ان خیالات کا اظہار یونیورسٹی سے نکالے گے ان طلبہ کی حمایت میں کیا تھا کہ جنہیں آزادی کشمیر کے حق میں نعرے لگانے پر مودی سرکار نے گرفتار کی اور ان پر غداری کا مقدمہ بنا ڈالا تھا۔ اقوام متحدہ بھارتی حکومت کو متنازعہ اقدامات اور اپنی قرار دادوں کی خلاف ورزی سے روکےاور عالمی برادری کشمیریوں کو استصواب رائے کا بنیادی حق دلانے میں کردار ادا کرے۔
تحریر : ڈاکٹر محمد ریاض چوھدری