تحریر : انجینئر افتخار چودھری
کل کی بات لگتی ہے برادرم خالد منہاس لاہور سے آئے کہنے لگے آئو چلیں آپ کا تعارف اپنے دوستوں سے کرواتے ہیں ۔میں ان دنوں میٹسوبیشی اسلام آباد موٹرز میں کام کیا کرتا تھا ایک پراجیکٹ تھا جو اتحاد گروپ نے شروع کیا تن من لگا دیا البتہ دھن ان کا اپنا تھا۔جنرل مینیجر کی حیثیت سے اس کو ہم کامیابی کے طرف لے گئے۔وقت مل جاتا تھا لوگ اچھے تھے ہمیں برداشت بھی کر لیتے تھے اپنی سیاسی سماجی سرگرمیوں کے ساتھ قلم کاری کے شوق کے لئے بھی وقت نکال لیا کرتے تھے۔دفتر ان کا ہوتا تھا ان کا کام بھی کرتے اور اپنا بھی ۔جی ایٹ مرکز میں اکبر ہائوس کی سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے جب ہف جاتے تو جموں و کشمیر کا دفتر سامنے مل جاتا عامر محبوب امتیاز بٹ اور شہزاد راٹھور سے تعارف ہوا میں نوائے وقت اور خبریں میں لکھا کرتا تھا جناب مجید نظامی میرا کالم شائع کر کے مجھ پر شفقت فرماتے۔ جموں و کشمیر کے ان تین بھاری بھر کم لوگوں سے ملاقات ہوئی دل خوش ہوا کہ اپنے ذوق کے لوگ ہیں۔ خوب گزرے گی۔
لفٹ میں عموما آپریٹر ان تینوں کو اکٹھا نہیں قبول کرتا کہ اسے علم ہے کہ یہ تین چھ لوگوں کے وزن کے حامل ہیں۔امتیاز تو ا تنے بھاری نہ تھے البتہ باقی دو حضرات آج بھی تولے جا سکتے ہیں ان کی ٹرائیکا جموں کشمیر کی کامیابی کی بنیادی وجہ بنی ۔تینوں بڑے وضح دار ایک سے ایک بڑا لکھاری۔یقین کیجئے ذہانت کے بغیر اس ادارے کا چلنا دوبھر ہو جاتا جموں و کشمیر نے اس دور میں سر اٹھایا جب کشمیر میں خبریں جیسا اخبار ہر نئے سر اٹھانے والے اخبار کا سر کچل ہی نہیں مسل دیا کرتا تھا۔اللہ خبریں کو بھی پائیندہ و تابندہ رکھے اس لئے کہ میری پہلی محبت وہ ہی ہے۔میرا کہنے کا مقصد ہے کہ اس وقت خبریں اوصاف نوائے وقت جیسے اخبارات کے ہوتے ہوئے نیا اخبار نکالنا بھاری پتھر اٹھانے کے مترادف تھا۔
اور یہ گول بٹی میرے ان دوستوں نے اٹھائی۔ صحافت کے ان گامے پہلوانوں یہ کام کر دکھا یا۔ہم نے لکھنا کیا تھا اپنی ہڈ بیتی لکھ دیتے تھے انہی دنوں سعودی عرب سے رگڑا کھا کے پاکستان آئے تھے جرنیلوں کے رگڑے ہم جیسے سخت کوش ہی کھا سکتے ہیں عزم تھا حوصلہ تھا جی چاہتا تھا کہ کہ ہاتھ میں تیشہ ہو اور اس ملک میں جمہوری دودھ کی نہریں نکال دوں اللہ نے مجھے کشمیری محاذ پر جموں و کشمیر دے دیا ۔میں نے بھرپور توجہ دی اور لکھنا شروع کیا میں کیا میرا شوربہ کیا اپنی ذات پر گزرے ظالم وقت کے زخموں کو لکھا بار بار لکھا ۔میں اس وقت کی انتظامیہ جو اس وقت امتیاز بٹ کے نہ ہونے سے جموں و کشمیر کو قدرے سونا کئے ہوئے ہے۔یقین کیجئے آج سردار منظور خان جو میرے سعودی عرب کے دوست ہیں ان کی پوسٹ دیکھی۔تو دل نے یاد کیا اور مجبور کیا کہ میرا حق بنتا ہے کہ جموں و کشمیر کے لاکھوں قارئین جو اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان سے شیئر کروں بس یہ ایک امر مجبور کر گیا ورنہ ہم اتنے فارغ ہیں اور نہ ہی عامر محبوب امتیاز بٹ و شہزاد راٹھور لہذہ مجبوری کے ٣٣ نمبروں کو سب کو دیتے ہوئے کالم لکھ رہا ہوں ورنہ اس دنیا میں روٹھنے کے بہانے ہزار ہیں۔میرا چونکہ سعودی عرب سے گہرا تعلق رہا ہے سوچا میں اپنے بیٹے جیسے سردار عثمان اور بھائی منظور خان کی اس اخبار کے لئے محنت بھی مجبور کر گئی۔
ان دس سالوں میں اس اخبار نے جو ترقی کی ہے اس کے لئے انتظامیہ کارکنان اخبار کے تقسیم کنندگان سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد دیتا ہوں۔دس سال پہلے یہ انٹرنیٹ کی بیماری عام نہ تھی اخبار خرید کے پڑھا کرتا تھا اب جب یہ ایک کلک پر کھلتا ہے مہینوں دیکھنے کو نہیں ملتا۔آج مجھے افتخار مغل مرحوم کو بھی یاد کرنا ہے جو اسی اخبار میں کالم لکھا کرتے تھے کیا خوب لکھتے تھے محترم بشیر جعفری کی تحریریں پڑھ کر جی خوش ہو جاتا تھا عزیزم خالد گردیزی کا ذکر نہ کروں تو سمجھتا ہوں بڑی زیادتی ہو گی ۔میرے شوق بھی وکھرے ہیں جیب میں پیسہ نہیں تھا چولہا جلانے کے لئے نوکری کی قلم تھاما اور سیاست کی پرپیچ وادی میں بھی چھلانگ لگائی ۔تحریک انصاف کو اس وقت جوائن کیا جب وہ ٹانگے کی سواری تھی نون اس وقت چھوڑی جب اس پر سب کچھ لٹا کے میاں نواز شریف کے معتمد ساتھیوں میں شمار ہونے لگا۔بس دل موجی من کھوجی بگڑا ہوا گجر اور سانڈ دونوں کو اللہ میاں کے سوا کوئی نہیں سنبھال سکتا۔عمران خان کے ٹانگے کی سواری بنے عدلیہ بحالی تحریک میں اعتزاز احسن کی جیپ میں چیف جسٹس کے ساتھ ہم رکاب ہوئے اور چل سو چل۔مطلوب انقلابی اور امتیاز بٹ کو اچھا نہیں لگا کہ ایک بڑی پارٹی کو چھوڑ کر ایک چھوٹی پارٹی میں گیا۔کہا کرتا تھا چھٹی نے بڑا ہونا ہی ہے قانون فطرت ہے۔اور بڑی نے کمر خمیدہ کرنی ہی ہے۔
جموں و کشمیر آج سج دھج سے کھڑا ہے۔اچھا لگتا ہے اپنے ہاتھوں کے لگائے ہوئے بوٹے پھل پھول دیں تو اور بھی اچھا لگتا ہے۔مجھے آج شدید تکلیف محسوس ہوتی ہے جب ہم پرانے دوستوں کی محفلوں محروم ہو جاتے ہیں۔سردیوں کی شاموں میں بلکہ راتوں میں کڑکی کے زمانے میں حمیدے بھائیے کی آواز مونگ پھلی ریوڑیاں کی آتی تو چپکے سے آنے دو آنے کی خرید لیتے محلے باغبانپورے کی دو آنے کی مونگ پھلی کا سواد آج کے ڈرائی فروٹ جو ایک ہزار سے کم کا نہیں آتا اس کا مزہ کہاں۔بات آپ سمجھ گئے ہوں گے اب ہم بھی مصروف گاڑیاں وسائل اور ہمارے بھائی بھی۔ملیں یہ نہ ملیں بس دل سے دور نہیں ہیں میرے یہ دوست۔ پچھلے سال کھڈ گجراں گیا تھا جاوید اقبال بڈھانوی کے والد صاحب کی رحلت پر وہاں جا کر احساس ہوا کہ جموں و کشمیر کیا ہے۔لوگ مجھے میرے کالموں کی وجہ سے زیادہ جانتے تھے۔ جب ہماری رشتہ داری صاحبزادہ اسحق ظفر مرھوم سے ہوئی اور میرا بھانجہ ان کا داماد بنا تو ان کے گھرانے میں میرے ریڈر پا کر دلی خوشی ہوئی۔ میرے کالم میرے جگنو ہیں نور جہاں نے کہا تھا کتنی راتیں جاگ گزاریں کتنی خوشیاں ان پر واریں گیتوں میں جب یہ بول ڈلے۔
سچ پوچھیں جب لکھنے بیٹھتا ہوں کوئی اور بن جاتا ہوں غصے میں تو رہتا ہوں اس دوران گھر والے سہم کے رہ جاتے ہیں دبے قدموں بیگم چلتی ہے کہ میاں لکھ رہے ہیں۔کسی بھی قلم کار کے لئے اس کی تحریریں قیمتی سرمایہ ہوتی ہیں۔اس کا لکھا اگر چھپے نہ تو وہ کیا معنی رکھتا ہے ۔جموں و کشمیر پر ہم نے کوئی احسان نہیں کیا البتہ ایک بات آج اس دسویں سالگرہ پر کہوں گا کہ اللہ نے مجھے تو وسائل دیکھ رکھے ہیں۔لیکن جس کے پاس نہیں ادارے کو چاہئے اس کالم نویس کے کالموں کا مجموعہ ضرور چھاپے۔ان دس سالوں میں کتنے لوگ ایسے ہوں گے دو چار دس بیس۔عامر محبوب اگر آپ یہ کام کر جاتے ہیں تو لوگ آپ کے اس خوبصورت کام کی قدر کریں گے۔آج اخبار دس سال کا ہو گیا ہے شراتی نٹ کھٹ عمر کے ان دس سنہری سالوں کو سلام سالگرہ مبارک ہو۔اس اخبار کی کامیابی کی وجہ عامر کی اپنی والدہ صاحبہ سے اٹوٹ محبت بھی ہے جو اہم تقریبات کی مہمان خاص بھی بنتی ہیں۔اللہ تعالی انہیں لمبی عمر دے۔ان صاحب دوستوں کو سلام جو اس اخبار سے منسلک رہے ۔جاوید اقبال ہاشمی کا ذکر نہ کرنا کنجوسی ہو گا۔سارے روشن لوگ سارے پیار کرنے والے جیتے رہیں۔سردار کلیم معروف صاحب اب تو نام بھی یاد نہیں رہے آتش اب سٹھیا گیا ہے،میرے وہ ساتھی کالم نویس سب کو سلام۔جموں و کشمیر تو دس سال کا ہو گیا ہے تو دس صدیاں جئے۔
تحریر : انجینئر افتخار چودھری