تحریر: عمرفاروق سردار۔ چیچاوطنی
6 جنوری 2013 کی صبح اداس اداس تھی کیونکہ سورج نمودار ہونے سے پہلے ہی دنیا بھر میں خبر پھیل چکی تھی امتہ مسلمہ کا غمخوار ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے کا درس دینے والا قاضی حسین احمد ہم سے بچھڑکر اپنے رب کی جنتوں میں جا پہنچاہے۔قاضی حسین احمد کے یوںاچانک بچھڑجانے سے جہاںجماعت اسلامی کے کارکن رنجیدہ تھے وہاں پوری پاکستانی قوم کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلم ممالک میں قاضی صاحب کی رحلت پر غم کی کیفیت تھی۔
قاضی صاحب کا نماز جنازہ دنیا بھر میں ادا ہوئی امام کعبہ نے بھی آپ کی غایبانہ نمازہ حرم میں پڑھائی ۔قاضی صاحب بہت سچے اور کھرے انسان تھے دکھ اور مصیبت میں کسی کو دیکھ کر خود پریشانی میں مبتلا ہوجاتے اور جب تک اس کی مدد نہ کردیتے ان کو چین نہیںآتاتھا۔فرقہ وارنہ اختلافات کوختم کروانے میںہمیشہ قاضی صاحب کی آواز سرفہرست رہی۔ان کی شخیصت ہی ایسی تھی کہ سب کو اسٹیج پر اکٹھاکردیتے۔پاکستان کے علاوہ بھی دنیابھرمیں ان سے محبت کرنیوالے آج کے دن رنجیدہ ہیں۔میںخودبھی جب یہ بات سوچتاہوںکہ میں قاضی صاحب کاکب اور کیسے دیوانہ بن گیاتومیراذہین آج سے 22 سال پیچھے چلاجاتاہے۔
جلسہ ختم ہوگیاتھا۔ہم بیٹے کس کے قاضی کے ۔ظالموقاضی آرہاہے کے نعرے گونج رہیے تھے۔اور گاڑی آرام آرام سے چل رہی تھی۔جس میں قاضی صاحب موجود تھے۔قاضی کے دیوانے مستانے گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگ رہیے تھے۔اور ان کے ساتھ ایک3.4سال کا بچہ بھی بھاگ رہاتھا۔اور اچانک گاڑی میں موجود قاضی حسین احمد کی نظرگاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے بچے پر پڑتی ہے اور آپ ڈرائیورسے کوئی بات کرتے ہیں گاڑی رک جاتی ہے قاضی صاحب اس بچے کو اٹھالیتے ہیں اورگلے لگاتے ہیںمنہ چومتے ہیں۔کچھ دیر باتیںکرتے ہیںاور چلے جاتے ہیں لیکن وہ چھوٹا بچہ آج 26سال کاجوان ہے اور آج بھی قاضی حسین احمد کا دیوانہ ہے۔یہ قاضی صاحب کی شخصیت تھی مخالفین جو جماعت اسلامی کے آج بھی سخت مخالف ہیں۔لیکن ان کے دلوں میں قاضی حسین احمدکااحترام موجودہے۔کیونکہ قاضی صاحب نے ہمیشہ جماعت اسلامی اور مخالفت کو اکھٹے چلنے نہیںدیا ۔آپ کے والد محترم جمیعت علماء ہند صوبہ خیبرکے امیر تھے آپ کا نام مولاناحسین احمدمدنی کی نسبت سے حسین احمد رکھاگیاتھا۔آپ شروع ہی سے حق گو اور بہادر تھے۔
اس بات کا اندازہ تو قاضی حسین احمد کی سیاسی جدوجہدسے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ہر طرف فائرنگ اور آنسو گیس کا راج تھا پولیس نے مظاہرین کے درمیان موجود قاضی صاحب کے گرد گرفتاری کیلیے گیرہ تنگ کرنا شروع کردیا۔ایک پولیس افسر نے قاضی صاحب سے کہا اگر آپ مزید آگے بڑھے تو آپ کو فائر ماردینے کا ہمیں حکم ہے ۔قاضی صاحب نے پولیس افسیرکی جانب مسکرا کر دیکھااور ایک تاریخی جواب دیا۔
کہ آپ اپنا فرض پورا کریںاور میں اپنا فرض پورا کرونگاکہہ کر منزل کی جانب چل دیئے۔آخری عمر میں بھی قاضی صاحب نے بے خوف کلمہ حق بلند کرنے کا سلسلہ جاری رکھا 2013 میں قاضی صاحب جب ایک جلسے سے خطاب کرنے جارہیے تھے آپ پر خودکش حملہ ہوا جس سے ملک بھر میں تشویش پھیل گئی۔میڈیا نے خبردی کہ قاضی صاحب حملے میں محفوظ ہیں اور جلسے سے خطاب کیے بنا ہی وآپس چلے گیئے ہیں ۔لیکن چند منٹ بعد ہی اسی میڈیا نے دیکھایا مقررہ وقت پر قاضی صاحب جلسہ گاہ میں موجودتھے اور خطاب کررہے تھے۔
آپ نے ڈرنا اور جوکنا سیکھا ہی نہیں تھا اتحاد امت کی جس جدوجید کا آغاز قاضی حسین احمد نے کیا تھا آج اسی جدجید کو لیکر سراج الحق آگے بڑھ رہیے ہے سراج الحق آج پاکستان میں امن کے سب سے برے داعی کے طور پر سامنے آئیے اس وقت بھی سراج الحق کے کردار کی وجہ سے ملک کسی برے خون خرابے سے بچ گیا تھا جب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچ اور دھرنے کو بزور طاقت گے بڑھنے سے حکومت روکنا چاہتی تھی اور سانحہ پشاور کے بعد بھی سراج الحق نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ 2015 کو امن کا سال قرار دیا جائے قاضی صاھب کی امن کی شمع ہمیشہ روشن رہے گی قاضی صاحب ہماری دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے
تحریر: عمرفاروق سردار۔ چیچاوطنی
03065876765