ٹوکیو: جاپان کے علاقے اوکایاما کے ماہرین نے کیلے کی ایک خاص قسم کی افزائش کی ہے جس کا چھلکا بھی کھایا جاسکتا ہے۔
اس خاص کیلے کو ’مونگی بنانا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ مونگی اوکایاما زبان کا لفظ ہے جس کے معنی حیرت انگیز کے ہوتے ہیں۔ اس علاقے میں ڈی اینڈ ٹی فارم کے ماہرین نے ان کیلوں کے لیے ایک نیا اور اچھوتا طریقہ متعارف کرایا ہے جس میں اس درجہ حرارت میں کیلا اگایا جاتا ہے جب وہ 20 ہزار سال قبل سخت سردی میں نموپذیر ہونا شروع ہوا تھا۔ ڈی اینڈ ٹی کے ماہرین کیلوں کے درخت کی کونپلوں کو منفی 60 درجے سینٹی گریڈ میں منجمد کردیتے ہیں اور اس کے بعد جب یہ پودے برف سے نرم ہونا شروع ہوتے ہیں تو انہیں زمین پر لگادیا جاتا ہے۔ اس طرح کیلے میں موجود ان کا قدیم ڈی این اے سرگرم ہوجاتا ہے اور کیلا نہ صرف جاپان کے خون جمادینے والے سرد موسم میں اگتا ہے بلکہ اس کی افزائش بھی تیز ہوجاتی ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں مونگی کیلوں کو فروخت کے لیے پیش کیا گیا لیکن یہ ڈی اینڈ ٹی فارم ہر ہفتے صرف 10 کیلے ہی بناتا ہے جو مقامی اسٹور پر تھوڑے مہنگے فروخت ہوتے ہیں اور ایسے ہر کیلے کی قیمت 600 پاکستانی روپے جتنی ہوتی ہے۔ اگرچہ اس کا چھلکا اتنا زیادہ لذیذ نہیں تاہم دیگر کیلوں کے مقابلے میں پتلا اور کم ترش ہے اور اسی بنا پر اسے کھایا جاسکتا ہے۔
اس پھل کو جاپانی ویب سائٹ کے ماہرین نے کھایا اور اسے عام کیلے سے بھی زیادہ مزیدار اور میٹھا قرار دیا ہے۔ اس میں شکر کی مقدار عام کیلوں کے مقابلے میں بھی زیادہ ہے یعنی مونگی کیلے میں 24 گرام اور عام کیلے میں 18 گرام تک شکر ہوتی ہے۔ بعض افراد نے اس کی خوشبو بہت تیز بتائی اور اس کا ذائقہ انناس جیسا قرار دیا ہے۔
یہ پھل مکمل طور پکنے کے بعد ہی کھایا جاسکتا ہے اور اس کا چھلکا بہت پتلا ہے جسے چبانا اور کھانا بہت آسان ہے۔ اگر صرف چھلکا ہی کھایا جائے تو یہ تلخ محسوس ہوتا ہے، اسی لیے چھلکے کو گودے کے ساتھ ملا کر کھایا جائے تو یہ بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اس کا چھلکا صحت کے خزانے سے مالامال ہے ۔ اس میں وٹامن بی 6، میگنیشیم اور دیگر اجزا موجود ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹھنڈے ماحول میں افزائش کی وجہ سے کیلے پر کیڑے مکوڑے نہیں آتے اور اس پر کوئی دوا استعمال نہیں کی جاتی۔