جاپان اور ہندوستان نے متنازع سول جوہری توانائی معاہدے پر دستخط کردیے جس کے بعد جاپانی کمپنیاں اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی ہندوستان کو برآمد کریں گی۔
معاہدے پر جاپانی وزیراعظم شینزو آبے اور ہندوستانی ہم منصب نریندرا مودی نے دستخط کردیے جو ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کی تنظیم این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے والے پہلے ملک بن گئے ہیں۔
تنظیم نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 5 مستقل رکن ممالک کے علاوہ دیگر ممالک کو ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
دوسری عالمی جنگ میں امریکا کی ایٹمی بمباری کا نشانہ بننے والا جاپان توانائی کی کمی کا شکار ہندوستان کے ساتھ سول جوہری تعاون کے حوالے سے این پی ٹی معاملے کو طویل عرصے تک جھٹلاتا رہا ہے۔
تاہم خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اور فوجی کردار کے پیش نظر نئی دہلی کے ساتھ منافع بخش معاہدوں اور اسٹریجک تعاون کے معاہدوں نے جاپان کے موقف کو واضح کردیا ہے۔
جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے مودی کی موجودگی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘معاہدہ ایک قانونی دستاویز ہے جو ہندوستان کی جانب سے نیوکلیئر توانائی کے پرامن استعمال کی ذمہ داری کو یقینی بناتا ہے’۔
جاپان کے ایک اہلکار نے کہا کہ دونوں ممالک اس بات پر متفق ہوچکے ہیں کہ اگر ہندوستان نے جوہری دھماکے کئے تو جاپان اس تعاون کو روک سکے گا۔
ہندوستانی وزیراعظم نریندرامودی نے کہا کہ ‘آج جوہری توانائی کے پرامن استعمال کے لیے ہونے والا معاہدہ توانائی میں شفاف شراکت داری کے لیے تاریخی قدم ہے’۔
دوسری جانب امریکا، جاپان اور ہندوستان بھی اسی طرح کے معاہدے فرانس اور آسٹریلیا سے کرچکے ہیں۔
واضح رہے دونوں اتحادی ممالک نے حالیہ سالوں میں باہمی تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جس میں گزشتہ سال دسمبر میں دفاعی مصنوعات اور ٹیکنالوجی کے تبادلے اور فوجی معلومات کے تبادلے کے معاہدے بھی شامل ہیں۔
جوہری توانائی کا معاہدہ خطے میں چین کے وسیع طور پر بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے پس منظر میں عمل میں آیا ہے۔
ہندوستان کو چین کے ساتھ طویل سرحدی تنازعات ہیں اور دونوں ممالک کی افواج 2014 میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئی تھیں۔
دوسری جانب جاپان کا چین کےساتھ چین کے مشرقی سمندر میں واقع جزیرے پر بھی تنازعہ ہے۔
مودی حکومت میں آنے کے بعد اگست 2014 میں جنوبی ایشیا سے باہر اپنے پہلے دوطرفہ دورے پر جاپان پہنچے تھے جس کے جواب میں شینزوآبے دو روزہ دورے پر دسمبر میں ہندوستان آئے تھے۔