تحریر : محمد صدیق پرہار
سینیٹر نسرین جلیل کی صدارت میں سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے غیرت کے نام پرخواتین کے قتل کے واقعات میں تشویش کااظہارکیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میں معافی کاسلسلہ ختم کیاجائے۔تاکہ ملزمان کوسزایقینی بنائی جاسکے ۔ معاف کرنے یانہ کرنے کااختیار مقتول کے ورثاء کا ہے۔مقتول کے ورثاء اگرمعاف کردیںتوسینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کواس پراعتراض نہیںہوناچاہیے۔کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ غیرت کے نام پرقتل جیسے مقدمات میں قصاص اوردیت کے اسلامی قانون کااطلاق نہ کیاجائے جب کہ غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میںریاست کومدعی بنناچاہیے۔ اسلام میں یہ تخصیص نہیں کی گئی کہ قصاص اوردیت کااطلاق کہاںہوگا اورکہاںنہ ہوگا۔اب اس کمیٹی کوبھی اس طرح کی سفارش نہیںکرنی چاہیے۔قتل کے مقدمات فوجداری مقدمات ہوتے ہیں اورفوجداری مقدمات کی مدعی ریاست ہی ہوتی ہے۔
کمیٹی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی متنازع سفارشات پربھی تشویش کااظہارکیااورکہاکہ عورتوںپرتشدد میں اضافے کی ذمہ داراسلامی نظریاتی کونسل خودبھی ہے۔سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین مخالف اقدامات اوران پرتشد د کوجائز قراردینے سے عورتوںپرتشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا۔انہوںنے کہا کہ کونسل کی سفارشات نے معاشرے میںخواتین کے خلاف منفی تاثرپیش کیااوران کے خلاف تشدد پراکسایاان سفارشات نے خواتین کوتحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کی مشکلات میں اضافہ کردیا۔خواتین پرتشدد کی ذمہ داراسلامی نظریاتی کونسل ہونہ ہو خواتین کے حقوق اورتحفظ کیلئے بنائے گئے پے درپے قوانین ضرورہیں۔خواتین پرتشدد کے خاتمہ اوران کے حقوق کیلئے جوقوانین بنائے گئے ہیں ان میں مردوںکوہی ذمہ دارٹھہرایاگیا ہے خواتین کواس سے بری الذمہ قراردے دیاگیا ہے۔
حالانکہ یہ قتل خواتین بھی کرچکی ہے۔ابھی گذشتہ دنوں ایک ماں نے پسندکی شادی کرنے پراپنی بیٹی کوزندہ جلادیا۔خواتین کے ہاتھوںمردوںکے قتل بھی ہوچکے ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کی خواتین پرتشدد کے حوالے سے سفارشات تواب آئی ہیں اس سے پہلے خواتین پرہونے والے تشدد کی ذمہ داری بھی اسی پرعائدہوتی ہے یاکسی اورپر؟ اس طرح کے قوانین بناتے وقت اعتدال کاراستہ اختیارکرناچاہیے۔ایسے قوانین بھی بنائے جائیں جس سے خواتین کوبھی ایسے کاموں سے روکاجائے جس کی وجہ سے ان کاغیرت کے نام پرقتل ہوتا ہے۔سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان جدیدزمانے کی قانون سازی سے لاعلم ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کاقیام اس لیے عمل میںلایاگیا تھا کہ وہ پارلیمنٹ اورریاست کی طرف سے بنائے قوانین پررائے دے کہ مجوزہ قانون اسلام کے خلاف تونہیں۔تاکہ ملک میں ایسے قوانین نہ بن جائیںجو اسلامی تعلیمات کے منافی ہوں۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے کسی بھی قانون کے بارے میں سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق دینی ہیں نہ کہ کسی کی خواہش کے مطابق۔پارلیمنٹ اورریاست کی طرف سے بنائے گئے قوانین تواسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالاجاسکتا ہے جبکہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کی گئی سفارشات کوپارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین میں نہیںڈھالاجاسکتا۔کونسل کے ارکان جدیدزمانے کی قانون سازی سے لاعلم ہوتے توپارلیمنٹ کی طرف سے بنائے قوانین پرسفارشات نہ دیتے۔اسلامی تعلیمات اورقوانین آفاقی ہیں ۔ یہ ہردوراورہروقت کیلئے ہیں ان میں نہ توکوئی تبدیلی ہوسکتی ہے اورنہ کوئی ترمیم۔کمیٹی میںکہاگیا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواتین ارکان کے خلاف نازیباگفتگوبھی قابل مذمت ہے۔خواتین کے بارے میں نازیباباتیںکرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔ بات تودرست ہے تاہم خواتین ارکان پارلیمنٹ کوبھی ایسا کام نہیںکرناچاہیے کہ ان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے جائیں۔قومی اسمبلی میں اس طرح کاتازہ واقعہ جوہوا ہے اس کی ذمہ داری اس پربھی عائدہوتی ہے جس کے بارے میںاسمبلی میںنازیباالفاظ کہے گئے ہیں۔جب اسے باربارخاموش ہونے کوکہاجارہاتھا اس نے احتجاج ریکارڈ کراناتھا کرادیا اب خاموش ہوجاتی ۔جب اس نے کسی کی نہیں سنی تواسے وہ الفاظ سننے پڑے جونازیباہیں۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اوراس کے قیام کے بارے میں آئینی اورقانونی اعتراض اٹھائے ہیں۔اسلامی نظریاتی کونسل کی مدت چاہے ختم ہوچکی ہے اس کی ضرورت اب بھی ہے۔اس کاکام پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے قوانین کے بارے میں سفارشات دینا ہے کہ مجوزہ یابنائے گئے قوانین اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیںیانہیں۔سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی یاکوئی اوریہ سمجھتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل درست کام نہیںکررہی ۔ تواس کے چیئرمین اورارکان کے تقرر کے طریقہ کارپرغورکیاجاسکتا ہے۔اس کے چیئرمین اورارکان کے معیارکوازسرنومرتب کیاجاسکتا ہے۔کونسل کے چیئرمین اورارکان کوتبدیل بھی کیاجاسکتا ہے۔ان کے تقررکے بارے میں پارلیمنٹ میںمناسب قانون سازی بھی کی جاسکتی ہے۔جیسا کہ پہلے لکھاجاچکا ہے کہ اسلامی تعلیمات آفاقی ہیں ۔ یہ ہردوراورہروقت کیلئے ہیں ان میںنہ توتبدیلی ہوسکتی ہے اورنہ ہی کوئی ترمیم۔ایسے معاملات جن کاحل قرآن وحدیث اورفقہ میںنہ ہوکوحل کرنے کیلئے اسلام نے قیاس اوراجتہادکی اجازت دی ہے۔
یہ اجہتاداورقیاس کرنا زمانے میںموجودعلماء کرام کی ذمہ داری ہے۔کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں توتمام مکاتب فکرکے جیّدعلماء کرام پرمشتمل ایک کمیٹی بناکریہ سفارشات اس کے سامنے رکھی جائیں علماء کی کمیٹی ہی فیصلہ کرے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں یانہیں۔علماء کی کمیٹی کے فیصلہ کی روشنی میں آئندہ کالائحہ عمل مرتب کیاجائے۔جہاں تک غیرت کے نام پرقتل روکنے کاتعلق ہے یہ قتل اس طرح نہیںروکے جاسکتے جس طرح روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔غیرت کے نام پرقتل خواتین کے ساتھ ناجائز تعلقات، والدین کی مرضی کے بغیرپسندکی شادی کرنے کی وجہ سے زیادہ ہوتے ہیں۔غیرت کے نام پرقتل روکنے کیلئے ضروری ہے کہ زنا حرام روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔جس تناسب سے یہ جرم کنٹرول ہوجائے گااسی تناسب سے غیرت کے نام پرقتل کے مقدمات میںبھی کمی آجائے گی۔ پسندکی شادی کے حوالے سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے۔اولادکووالدین کی خواہشات کااحترام کرناچاہیے اوروالدین کوبھی چاہیے کہ وہ اولادکی پسندکاخیال کریں۔ شادی باہمی مشاورت سے ہونی چاہیے کسی کومرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیںہونی چاہیے۔
کہاجاتا ہے کہ لوگوںکووضوکرنے کاطریقہ نہیں آتا ، نمازکیسے پڑھنی ہے بعض لوگ نہیںجانتے، مساجدکے امام اورعلماء کرام لوگوںکی راہنمائی نہیںکرتے ، لوگوںکے مساجدکے احترام کانہیں بتاتے، علماء کرام اورمساجدکے امام لوگوںکووضواورنمازکاطریقہ نہیںبتاتے،نمازپڑھاکرتنخواہ وصول کرنے کوترجیح دیتے ہیں ۔لوگوںکی نمازمیں عدم دلچسپی اوراہمیت نہ دینے کاذمہ داربھی علماء کرام اورآئمةالمساجدکوسمجھاجاتا ہے۔ایسی باتیںکرنیوالے زمینی حقائق سے لاعلم ہیں یاجان بوجھ کرعلماء کرام اورآئمة المساجدکونشانہ بنایا جارہا ہے۔اس بات سے انکارنہیںکیاجاسکتا کہ لوگوںکویہ باتیںبتاناعلماء کرام اورمساجدکے امام کی ہی ذمہ داری ہے ۔ درحقیقت اس صورتحال کے ذمہ دارعوام خودبھی ہیں۔لوگوںکوکرکٹ میچوںکی پوری تفصیل یادہوتی ہے۔کون سے میچ میںکس کھلاڑی نے کتنے سکوربنائے تھے۔ کتنے کھلاڑیوںکوآئوٹ کیاتھا۔کون سے میچ کافائنل کس ٹیم نے جیتاتھا۔عوم کوفلموںکے نام اوران کے کرداربھی یادہوتے ہیں۔کیاکیاتفصیلات بتائی جائیں کہ عوام کوکیاکیایادہوتا ہے۔کون ساعالم دین اورامام مسجدیہ باتیںلوگوںکوبتاتا ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ علماء کرام یاآئمة المساجدلوگوںکودین کے بنیادی مسائل اور طریقے نہیںبتاتے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوںکی اس طرف دلچسپی ہی نہیں ہے۔بچوںکودنیاوی تعلیم دلانے کیلئے ہرماہ ہزاروںروپے خرچ کرلیے جاتے ہیں جبکہ قرآن پاک پڑھانے والے معلم کوپانچ سوروپے بھی مشکل سے دیتے ہیں۔ بلکہ مساجدمیں بچوںکودینی تعلیم فری بھی دی جائے توبہت کم لوگ بچوںکومساجدمیں بھیجنے کوترجیح دیتے ہیں۔اس طرح کے مسائل بچپن میں سکھائے جاتے ہیں اب مسئلہ یہ ہے اکثروالدین کی ترجیح دنیاوی تعلیم ہے دینی تعلیم نہیں۔بچوںکوقرآن پاک پڑھنے کاوقت بھی مشکل سے ملتا ہے ۔بچوںکوقرآن پاک پڑھانے کاوقت سکول اورٹیوشن کے وقت کے مطابق مقررکیاجاتا ہے ٹیوشن کاوقت قرآن پاک پڑھنے کے وقت کے مطابق طے نہیںکیاجاتا۔
علماء کرام اورآئمة المساجدپریہ الزام غلط ہے کہ وہ لوگوںکی راہنمائی نہیںکرتے، وضو،نمازکاطریقہ نہیں بتاتے۔ عوام کودین کے بنیادی مسائل نہیںبتاتے۔علماء کرام اورمساجدکے امام یہ باتیں بتاتے ہیں اورضروربتاتے ہیں۔نمازپنجگانہ ہو، جمعة المبارک ہو، نمازجنازہ ہویاعیدین کی نمازہو، نمازی آخری وقت پرآتے ہیں بعض توپہلی رکعت میں بھی شامل نہیںہوسکتے۔نمازاداکرکے جلدی سے چلے جاتے ہیں امام مسجدکے ساتھ دعابھی نہیںمانگتے۔یہ مسائل اورطریقے جمة المبارک کے خطاب اورقل خوانی کے اجتماعات میںبتائے جاتے ہیں۔
جمعة المبارک کی نمازاداکرنے اس وقت لوگ مساجدمیں آتے ہیں جب خطبہ کی اذان دی جارہی ہوتی ہے۔ بعض توخطبہ میں بھی شامل نہیںہوسکتے۔قل خوانی میںلوگ اس وقت آتے ہیں جب ختم شریف پڑھاجارہا ہوتا ہے ۔اب ان حالات میںکوئی دین کے بنیادی مسائل بتائے بھی توکس کوبتائے۔عوام کے پاس دنیاکے دیگرتمام کاموں کیلئے وقت بھی ہے اورسرمایہ بھی ۔ مگرافسوس کہ نمازپڑھنے اوردین سیکھنے کیلئے ان کے پاس وقت ہے اورنہ ہی سرمایہ۔دین مفت سکھایاجاتا ہے تب بھی بہت کم لوگ اس طرف توجہ دیتے ہیں۔اب تومساجدسے سپیکربھی اتاردیے گئے ہیں۔اب توصرف اذان اورنمازجمعہ کے عربی خطبہ کی ہی لائوڈ سپیکرپراجازت ہے۔مسجدمیںنمازی آخری وقت پرآتے ہیں خطیب اورمقرر کی آوازمسجد سے باہرنہیںجاسکتی توکیاعلماء کرام، آئمة المساجدلوگوںکووضواورنمازکاطریقہ، دین کے بنیادی مسائل مساجدکی دیواروںکوبتائیں۔
پہلے سکولوںمیں یہ سب کچھ سکھایاجاتا تھا اب ان کی ترجیحات بھی تبدیل ہوگئی ہیں۔پاکستان کے اکثرشہروںمیں دعوت اسلامی کاہفتہ واراجتماع ہوتا ہے ۔ اس میں وضو،نمازکاطریقہ، دین کے بنیادی مسائل ہی بتائے جاتے ہیں۔وضو، نماز، ارکان اسلام کی ادائیگی کاطریقہ اورمسائل پرمشتمل علماء کرام کی لکھی گئی کتابیں بھی مارکیٹ میںموجودہیں میگزین، رسالے اورناول توخریدکریاکرائے پرلے کرتوعوام پڑھتے ہیں دینی مسائل پرلکھی گئی کتابیں بھی خرید کرپڑھ لیں توعوام کوکس عالم دین یامسجدکے امام نے روکا ہے۔جس کووضواورنمازکاطریقہ نہیں آتا وہ اپنے قریبی عالم دین یاامام مسجدکے پاس چلاجائے تووہ ضروراس کی راہنمائی کریں گے۔سکولوںمیں زیادہ نہیں توہفتہ میں دودن ایک پیریڈ دین کے بنیادی مسائل اورطریقے سیکھنے اورسکھانے کیلئے بھی ہوناچاہیے اور اس کاسالانہ امتحان بھی لیاجاناچاہیے۔
یہ باتیں اورمسائل سیکھنے کے توبہت سے ذرائع ہیں اب اگرکسی کی دلچسپی ہی نہ ہوتوعلماء کرام اورآئمة المساجدکیاکرسکتے ہیں۔سکولوںمیںجہاں کھیلوں کے مقابلے کرائے جاتے ہیں وہاں وضوکرنے اورنمازپڑھنے کے مقابلے بھی کرائے جائیں توبچوںمیں دین سیکھنے کارجحان بڑھ جائے گا۔افسوس تویہ بھی ہے کہ عوام کونمازپڑھنے کاوقت مشکل سے ملتا ہے دین سیکھنے کاوقت کہاں سے ملے گا۔ہم اپنی ترجیحات میں دین کوشامل کرلیں تویہ شکایت نہیں رہے گی کہ لوگوںکووضواورنمازکاطریقہ نہیں آتا۔
تحریر : محمد صدیق پرہار
siddiqueprihar@gmail.com