تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری
تازہ ڈرون حملہ میں بقول امریکنوں کے طالبان کے ملاعمر کی وفات کے بعد بننے والے امیر ملا منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔ڈرون حملے کسی بھی ملک کی سرحدوں کی خلاف ورزی ہیں۔کمانڈو جنرل مشرف جو ملک سے باہر جا چکا ہے نے ہی امریکہ کو اپنے اڈے افغانستان پر بمباری کرنے اور نام نہاد القاعدہ کے خاتمے کے لیے دیے تھے ۔ڈرون حملوں سے آج تک جو تخریب کار انہوں نے قتل کیے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ ہے۔ اب چو نکہ امریکہ میں صدارتی انتخابات کی مہم چل رہی ہے اس لیے وہاں مقتدر پارٹی کوایسے واقعات سے ووٹروں میں مقبولیت پانے کا تصور موجود ہے۔مقتول پاکستان کا رہائشی معلوم ہوتاہے اور دعویٰ یہ کہ ملا منصور کو ہم نے ہلاک کیا واللہ علم بالصواب۔ہم F16لینے گئے تھے ہمیں کھرا جواب دے ڈالا گیا کہ ان کے ٹائوٹ و ایجنٹ آفریدی کو چھوڑا جائے یہ سراسر بلیک میلنگ ہے۔ریمنڈ ڈیوس انہوں نے ہم سے رہا کروالیا تھا۔
اب انھیں ہماری کمزوری کا پتہ چل گیا ہے کہ ذرا سی آنکھ دکھائیںتوپاکستانی حکمران لیٹ کر تابعداری فرماتے ہیں اس لیے اب اس مجرم کو بھی چھڑوانا چاہتے ہیں ۔مسلمانوں کی تاریخ میں میر جعفر و میر صادق ہمیشہ ہی رہے ہیں۔اور چند لاکھ پر پاکستان میں تخریبی سر گرمیوں کے لیے ایجنٹ ڈھونڈنا کوئی مشکل کام نہ ہے جہاں 70فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوںلو گ دانے دانے کو ترستے اور بھوک پیاس بے رو زگاری سے خود کشیاں ،خود سوزیاں کرتے اورڈوب مر رہے ہوں تووہاں سے خواہ سینکڑوں ایجنٹ بھرتی کر لو یہاں تک کہ خود کش بھی تیار کر لو واقعی خودکش بمبار تو ایٹم بم سے بھی خطر ناک ایجادہے جو کہ اصل ٹارگٹ پر حملہ کر سکتا ہے۔
مشرقی پاکستان کو علیٰحدہ کرنے کی 1971 کی جنگ میں ہم آس لگائے بیٹھے تھے۔کہ امریکی بحری بیڑا خلیج بنگال میں ہماری امداد کے لیے جلد پہنچ رہا ہے اور امریکنوں نے اسے سفر پر روانہ بھی کردیا ہے مگر سب سفید جھوٹ نکلا۔ہماری غلطی یہ ہے کہ ہم مسلمان ہوتے ہوئے بھی سامراجیوں یہودیوں ،بھارتیوں اورامریکنوںسے امداد لینے چل پڑتے ہیں حالانکہ واضح ہے کہ الکفر ملتاً واحدہ۔مسلمانوں کے ممالک کی آپس میں معمولی لڑائی ہویا جنگ چھڑجائے تو امریکی یہودی اسرائیلی اور بھارتی چوکور میں سے ایک گروپ ایک مسلمان دھڑے کی اور دوسرا دوسرے دھڑے کی امداد کرے گا تاکہ مسلمان مسلمان کا خون بہاتا رہے اور یہ ممالک آپس میںبر سر پیکار رہیں فرقوں اور سرحدی جھگڑوں میں الجھے رہیںاور مسلم امہ کا تصور اجاگر ہی نہ ہو سکے اور ہم ان کے تیل و دوسرے معدنی ذخائر پر قبضہ کرتے چلے جائیںسانپ کو جتنا بھی دودھ پلوادیں ڈنگ مارنے سے باز نہیں آئے گا۔
کویت سعودیہ جنگ میں سعودیوں نے امریکنوں اور ان کے فوجیوں کو اپنی حفاظت کے لیے بلوایا تھا۔اور اپنے فوجیوں سے کوئی پچاس گنا زیادہ تنخواہ آج تک دیے چلے جارہے ہیں”اگ لین آئی سی تے گھر دی مالکن بن بیٹھی”کی طرح کوئی مانے یا نہ مانے اب وہ قابض ہوئے بیٹھے ہیںجدید ترین اسلحہ ان کے پاس ہے اور وہ روایتی طور پر آنکھیں بھی دکھارے ہیںغیرت مندمسلمانو ذرا سوچو تو سہی کہ بھلا کبھی دین دشمن بھی آپ کی امداد کر سکتے ہیں؟وہ تو پہلے کسی دوسرے اسلامی ملک سے آپ کی جنگ کو تیز کرنے اور طول دینے کی پلاننگ کریں گے تاکہ لڑلڑ کرہم موت کی وادیوں میں پہنچتے رہیں اور ان کا جدید اسلحہ بھی ان کے منہ مانگے داموں بکتا رہے۔سابقہ مسلم ادوار کی حکومتوں میں نو کر چاکرمحافظ مسلم بادشاہوں کو قتل کرکے خود تخت پر براجمان ہوتے رہے ہیں۔امریکی صدر باراک اوباما نے مو جودہ ڈرون حملہ کرنے پر پاکستانی احتجاج کو پرِ کاہ کے برابر بھی حیثیت نہیں دی۔
ان کے دل میں ہے کہ ہماری بلی ہمیں ہی میائوں ویسے ہمیں حکمرانوں نے ایسی بھکاری قوم بنا ڈالا ہے کہ کئی بار دھتکارے جانے کے باوجود امدادی کشکول لے کر پھر اسی در پر پہنچ جاتے ہیںہمارے ملک کے اندرونی بھکاریوں اور گداگروں کو جو شخص یا دوکاندار جمعرات کو امداد نہ دے اس کے پاس خودداری کامظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ مانگنے نہیں جاتے مگر ہمارے حکمران بھکاری کوئی انو کھی قسم سے تعلق رکھتے ہیںکہ گالیاں کھا کر بھی بد مزا نہ ہوا۔ویسے اگر حکمران سمجھ بو جھ سے کام لیں توبقول میر
میر کیا سادے ہیںکہ بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
امریکن دوغلی پالیسی کا شکار بن چکے ہیںڈرون حملہ کے بعد بھی اوبامہ کا کہنا کہ پھر بھی ایسا کریں گے اور پاکستان سمیت کسی بھی جگہ حملہ کرنا ہمارا ہی حق ہے ۔سخت تکلیف دہ اور اشتعال انگیز بیان ہے۔بھاڑ میںجائے آپ کا صدارتی الیکشن ہمیں کیا لینا دینا۔آپ کا بیان کیاصدارتی امیدوارٹرمپ سے کسی صورت کم اشتعال انگیز ہے ہر گز نہیں۔ہم خود مختار ایٹمی طاقت ہیںہم سے پنگا لینے سے بالآخر آپ ہی کا نقصان ہو گا۔امریکی ہمیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میںاپنا اتحادی بھی قرار دیتے ہیں۔اور ہمارے ذمہ لگا رکھا ہے کہ ان کو باحفاظت افغانستان سے نکل جانے کی بذریعہ مذاکرات طالبان سے اجازت کا پروانہ لے کر دیںاور خود ایسی حرکت کہ ہماری ہی سرزمین پر ڈرون حملے۔ ایسی انوکھی پالیسیوں کا خوامخوہ جو لازماً نتیجہ نکلے گاکہ افغانیوں کی سرزمین پر تمام حملہ آور ہمیشہ شکست خوردہ رہے اور حملہ آور افراد میں سے آج تک کوئی واپس نہیں جاسکاان حالات میںہم خواہ کتنے ہی ترلے منتیں کریںطالبان نہیں مانیں گے آپ ہمیشہ دوست کے دشمن اور دشمن کے دوست بن کررہے ہیںپاکستان کو خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتخانہ جو سراسر سازشوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔اسے بند کرکے امریکنوں کو احساس دلوانا چاہیے کہ ان کا کس قوم سے پالا پڑا ہے۔
تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری