دنیا بھر میں یہودی برادری دیگر مذاہب کے مقابلے میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے جبکہ ہندو اور مسلمان سب سے کم تعلیم یافتہ ہیں۔
پیو ریسرچ سنٹر کی تعلیم اور مذہب کے حوالے سے ایک تازہ رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر یہودی برادری میں لوگ اوسطً 13.4 سال تک باضابطہ سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ عسیائی برادری میں یہ اوسط 9.3 سال ہے۔
ادھر مسلمان برادری اور ہندو برادری میں اوسطً 5.6 سال تک سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جو کہ عالمی سطح پر مجموعی اوسط 7.7 سال سے کم ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس رجحان کی وجوہات میں سے ایک یہ سوال ہے کہ یہ مذہبی برادریاں کن ممالک میں مقیم ہیں۔ یہودی برادری کی اکثریت دو ممالک امریکہ اور اسرائیل میں رہتی ہے جہاں تعلیمی وسائل قدرے زیادہ ہیں۔ ان کے مقابلے میں ہندو برادری کا تقریباً 98 فیصد جنوبی ایشا کے ممالک انڈیا، نیپال اور بنگلہ دیش میں ہے جہاں تعلیمی معیار کم اور غربت زیادہ ہے۔
جنوبی ایشیا میں اس رپورٹ کے حوالے سے سب سے کم تعلیم والی دوسری برادری مسلمانوں، کی بھی بڑی تعداد رہتی ہے۔ چنانچہ اس رپورٹ سے یہ اخذ کرنا غلط نہ ہوگا کہ اس رپورٹ نے اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں اوسطً لوگ کم سالوں تک سکول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
پاکستان میں بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی میں شعبہِ تعلیم کے سربراہ ڈاکٹر طارق رحمان کا خیال ہے کہ جنوبی ایشیا میں تعلیم کا یہ فقدان مذہبی نہیں ایک معاشی مسئلہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جنوبی ایشیا میں شروع سے پالیسی یہی رہی کہ زیادہ تر بچوں کو پڑھایا ہی نہیں جاتا۔ کچھ بچوں کو مقامی زبانوں کے میڈیم کے سکولوں میں بھیجا گیا اور کچھ امرا کے بچوں کو انگلیش میڈیم سکولوں میں بھیجا گیا۔ عام سکولوں میں جو بچے جا بھی پاتے ہیں ان کے سکول چھوڑنے کی شرح بہت زیادہ رہی ہے۔’
بچوں کے سکول کو چھوڑنے کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ‘اکثر والدین کو ان بچوں کی کام کاج کے لیے ضرورت پڑ جاتی ہے اسی لیے وہ دوسری یا تیسری جماعت میں سکول چھوڑ دیتے ہیں۔’
اسی حوالے سے معروف تاریخدان ڈاکٹر مبارک علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہندو برادری میں تعلیم کے معاملے میں ایک بڑا مسئلہ ذات پات کا نظام رہا ہے۔
‘خاص طور پر نیچلے ذات کے لوگوں کو تو انگریز کے آنے سے پہلے تعلیم تک رسائی نہیں تھی۔ انگریز کے آنے کے بعد اس کا حل یہ نکالا گیا کہ اونچی ذات کے لوگ بینچوں پر بیٹھیں گے اور نیچلی ذات کے لوگ کلاس روم کے باہر زمین پر بیٹھیں گے۔’
مختلف مذاہب سے تعلیم کی وابستگی کے بارے میں ڈاکٹر مبارک علی نے بتایا کہ یورپ میں جب یہودی برادری کو گیٹوز (غریب بستیوں) تک محدود کر دیا گیا تھا تو ان کے پاس دو ہی پیشے رہ گئے تھے، تعلیم اور تجارت، اور یہی وجہ ہے کہ تاریخی طور پر اس برادری کی توجہ تعلیم پر رہی ہے۔
اگر مغربی ممالک کی مثال ہو تو ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مذہبی اقلیتوں یا ہجرت کر کے کسی ملک میں آنے والے افراد اور ان بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان دیگر افراد کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔
اس کی ایک اہم مثال امریکہ ہے جہاں ہندو برادری میں ہائر ایجوکیشن یعنی اعلیٰ تعلیم یافتہ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں مختلف برادریوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی شرح مندرجہ ذیل ہے:
ہندو 96 فیصد، یہودی 75 فیصد، مسلمان 54 فیصد، بودھ 53 فیصد، کسی بھی مذہب سے غیر منسلک 44 فیصد اور عیسائی 36 فیصد ہیں۔
اس رپورٹ میں ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ہی خطے کی کسی دو مذہبی برادریوں میں سب سے زیادہ فرق افریقہ میں صحرائے صحارہ کے ذیلی خطے کے ممالک میں پایا جاتا ہے۔ یہاں عیسائی برادری مسلمان برادری سے کہیں زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ ان ممالک میں تقریباً 30 فیصد عیسائی جبکہ 65 فیصد مسلمان ناخواندہ ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس فرق کا ایک تاریخی پس منظر ہے افریقہ میں نو آبادیاتی نظام کے تحت عیسائی چرچ نے مذہبی تعلیم کے فروغ کے لیے بہت سے سکول تعمیر کیے اور آج تک مسلمانوں میں اسی وجہ سے تعلیمی فقدان پایا جاتا ہے۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تاریخی تناظر میں مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان تعلیمی رحجانات میں فرق کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر خواتین اور مردوں کے درمیان بھی تعلیم حاصل کرنے کی شرح میں فرق میں کمی آئی ہے۔