تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
مرحوم قاضی حسین احمد صاحب کی طرح مرحوم حمید گل صاحب بھی اسلام کے شیدائی اور ایک جہادی شخصیت تھے۔ دونوں کو اسی وجہ سے پاکستانی قوم بلکہ امت مسلمہ میں پزیرائی ملی۔ مسلم دنیا میں دونوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ہے اور مستقبل میں بھی دیکھا جاتا رہے گا۔ کیونکہ اللہ کے حکم کے مطابق جہاد رہتی دنیا تک قائم رہے گا لہذا جہادی لوگ بھی رہتی دنیاتک مسلمانوں کے دلوں میں رہیں گے۔
دونوں پر بہت کچھ لکھا گیا اورلکھا جاتا رہے گا۔دونوں افغانستان اور کشمیرکے جہاد اور مجاہدین کے پشت بانی تھے۔دونوں کو جہادی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے ان کے مشوروں پر عمل بھی کرتے تھے۔ شہرت کے دلدادہ، دولت کے پجاری، اسلامی نظام ِ زندگی سے بیزار اور امریکی پٹھو حکمرانوں سے پاکستان کی خاموش اکثریت اور اللہ، اگلے جہاں میں ضرور پوچھے گا، جن کی غلطیوں کی وجہ سے ا فغانستان کے عظیم جہاد کے ثمرات حاصل کرنے میں رکاوٹ بنے۔ جنرل حمید گل کے خاندان کا سوات سے تعلق تھا وہ یوسفزئی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو بعد میں پنجاب کے مشہور شہر سرگودھا میں آباد ہوا۔مارچ ١٩٨٧ء میں آئی ایس آئی کے سربراہ بنے ۔جہاد افغانستان کو کامیابی تک پہچانے میں جنرل حمید گل کا بڑا ہاتھ تھا۔
روس کے قبضے کے بعدافغان جہاد شروع تو افغانیوں نے ہی کیا تھا مگرافغان جہاد میں امت مسلمہ کے نوجوانوں کا خون بھی شامل تھا اس لیے اللہ نے کامیاب بھی کیا۔تاریخ میں جب بھی مسلمانوں نے کفار کے خلاف جہاد کیا اللہ نے اُنہیں کامیابی عطا کی۔ جہاد کی برکت سے اللہ نے دنیا کی سب سے بڑے مشین کو فاقہ مست افغانیوں کے ہاتھوں شکست فاش دی۔ پاکستانیوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ روس نے مشرقی پاکستان کو توڑنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔روس اور بھارت کا دفاعی معاہدہ تھا جس پر جنگ کے دوران روس کی ایٹمی گن بوٹز نے پاکستان کے سمندروں کامحاصرہ کیا رکھا پاکستان کی بحریہ کو مفلوج کیا۔ پاکستان کے نیٹو اتحادی امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کے لیے یہ آیا وہ آیا کے مصداق کبھی نہ آیا۔ بلکہ ہنری کیسنگر کی کتاب کے مطابق امریکہ نے پاکستان توڑنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔
آئی ایس آئی کے بہادر جہادی حمید گل نے بہترین منصوبہ بند ی کر کے افغانستان میں روس سے پاکستان توڑنے کا بدلہ لے لیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی چھ اسلامی ریاستیں، قازقستان، کرغیزستان، اُزبکستان، ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں بھی سفید ریچھ سے آزاد کرا لیں۔جہاد کی برکت سے روس سے مشرقی یورپ کی متعدد مظلوم ریاستوں کو بھی آزاد ہوئیں ۔ دیوار برلن بھی ٹوٹی اور دنیا میں پھیلایا گیا جھوٹاسلوگن کہ روس جس ریاست میں داخل ہوتا ہے واپس نہیں نکلتا جو ذلیل ہو کر افغانستان سے نکل گیا، جس کی چگالی کر کے پاکستان کے شکست خورد ذہنیت کے مالک نام نہاد سیکولر اورروشن خیال، تھالی کے بیگن مجاہدین کو خوف زدہ کیا کرتے تھے اور اب مفادات کی ہوس میں نیو ورلڈ آڈر کے دلدادہ امریکہ کی چگالی کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی ٤٦ ملک بھی افغانستان میں جہاد ہی کی برکت سے پسپا ہوئے ہیں۔ اب پھر پہلے کی طرح سازشوں کے جال بُنے جارہے ہیں اور اشرف غنی صاحب کی امریکی پٹھو حکومت افغان طالبان کو طرح سے طرح کے نام دے کر بد نام کر رہی ہے۔
کبھی دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے اور کبھی انتہا پسندی کا۔ کیا اپنے ملک کو کسی بھی جارح قوت سے آزاد کرانے اور اپنی مرضی سے اپنے ملک کے نظامِ زندگی کو چلانے والے حریت پسند مجاہدین کو دہشت گرد کہا جائے گا یا بیرونی قبضہ کرنے والے کو دہشت گرد اور انتہا پسند کہا جائے ہیں؟ جہاں تک جنرل حمید گل کا تعلق ہے تووہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ہمیشہ فعال رہے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت، ان میں کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔بھارت اور امریکہ کی پاکستان دشمن پالیسوں کے خلاف کھل بولتے تھے۔ اس وجہ سے دونوں ملکوں کے معتوب رہے تھے۔١١٩ کو یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔پاکستان اور اسلامی دنیا میں ایک بڑے حلقے میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر رہے۔ پاکستان پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ان کے تجزیے اخبارت کی زینت بنتے تھے وہ پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے افغانستان پر روسی حملہ افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹکانہ ہے۔
مراد یہ تھی کہ روس نے گرم پانیوں تک رسائی کے لیے افغانستان پر قبضہ کیا ہے وہ پاکستان پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔اس پالیسی کے تحت سفید ریچھ کوافغانستان میں ہی روکنے کی پالیسی ترتیب دے کر جہاد افغان کی پشت بانی کی تھی جو انتہائی کامیاب رہی۔ جنرل حمید گل نے پاکستان کی دینی قوتوں کا ہمیشہ ساتھ دیا۔ دنیا میںمسلمانوں کی کامیابی کے لیے سوچ بچار کرتے رہتے تھے۔ پاکستان میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے ڈکٹیٹر مشرف کو ذمہ دار ٹھیراتے تھے پاکستان کے حالات درست کرنے کے لیے فکر مند رہتے تھے اسی سلسلے میں کسی وقت مسلم لیگ کے راجہ ظفرالحق صاحب سے ڈسکشن میں موجودہ مغربی جمہوریت سے بیزاری کا اظہار کیا تھا تو راجہ صاحب نے کہا کوئی خاکہ بنائیں مگر آخر وقت تک کوئی متبادل تیار نہ کر سکے۔ پچھلے دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں بھی اس کا تذکرہ کیا اور یہاں تک کہہ رہے تھے کہ موجودہ آئین بھی ٹوٹ جائے تو کوئی بات نہیں دوبارہ بن جائے گا نہ جانے اُن کے ذہن میں کیا خاکہ تھا۔مروجہ طور طریقے کے مطابق ان کی کوئی اپنی سیاسی پارٹی تو نہیں تھی کہ اُس کے ذریعے الیکشن جیت کر وہ کوئی اصلاح کا کام کرتے اور نیا آئین بھی بناتے۔ موجودہ دورمیںرائے عامہ کے بغیر کوئی اور طریقہ ممکن ہی نہیں۔
پاکستان بھی جمہوری جدو جہد کے ذریعے قائد محترم محمد علی جناح نے حاصل کیا تھا۔ پاکستان میںکوئی بھی تبدیلی جمہوری جد و جہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔فوجی طبع آزما ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے بھی اسلام کی بات کی اور ڈکٹیٹر مشرف نے بھی روشن خیال پاکستان کی بات کی دونوں باتیں نہ ہوسکی کیونکہ اُن کے پیچھے عوام کی قوت نہیں تھی۔ اس لیے صد احترام کے ساتھ ایک بڑے حلقے نے جنرل گل کی آئین ٹوٹ جانے اور نیا آئین بنانے کی بات پرگرفت کی تھی۔روز روز ملکوں کے آئین نہیں بنا کرتے ہاںآئین میں تبدیلی کے گنجائش ہر وقت موجود ہوتی ہے۔ تبدیلی کا طریقہ آئین میں درج ہے اس لیے ہم نے بھی اُن سے اختلاف کرتے ہوئے ایک مضمون لکھا تھا ” نہیں نہیں آئین نہیں ٹوٹنا چاہیے” جو پاکستان کی کئی اخبارات میں شائع ہوا۔بہر حال جنرل حمید گل ایک نیک انسان، اپنے ملک سے محبت کرنے والے اور جہادی شخص تھے۔ اُن کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول کرے آمین۔
تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکیستان اسلام آباد (سی سی پی)