اسلام آباد: سپریم کورٹ نے مشال خان قتل کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو قانون کے تمام تقاضے پورے کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مشال خان قتل ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے موقف اختیارکیا کہ 57 میں سے 53 ملزمان گرفتار کرلئے گئے، 49 ملزمان جوڈیشل اور چار ملزمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں، مرکزی ملزم عمران کو بھی گرفتارکر لیا جس نے مشال کو گولیاں مارنے کا اعتراف کرلیا ہے، 6 گواہان کا بیان ریکارڈ کر لیا جب کہ عبوری چالان جمع بھی کرا دیا ہے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کیا عبوری چالان پر ٹرائل کورٹ فیصلہ کرسکتی ہے، کوشش کرکے تین ہفتے تک حتمی چالان جمع کروا دیں، اسلامی معاشرے میں ایسے رویوں کی گنجائش نہیں جب کہ جے آئی ٹی قانون کے تمام تقاضے پورے کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اب تک یونیورسٹی انتظامیہ کے کردارکا تعین کیوں نہ ہوسکا جب کہ عدالت نے ملزمان کے اعترافی بیان کے ساتھ شواہد اکٹھے کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت میں موجود مشال خان کے والد اقبال خان نے کہا کہ معاملہ صبح دس بجے شروع ہوا اور3 بجے مشال کو قتل کیا گیا، ڈی ایس پی سمیت دیگرپولیس اہلکار وہاں موجود تھے۔ مشال خان کی بہنیں ڈرکے مارے تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہیں جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بچیوں کو اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں منتقل کرنے کا لائحہ عمل بتائیں، آپ کو انصاف فراہم کرنا ہمارافرض ہے، آپ کے دکھ میں برابرکے شریک ہیں، واقعے کے پیچھے پورا احتجاج ہے، دیکھنا ہے پولیس محرکات کے حوالے سے کیا کارروائی کرتی ہے۔ صوبائی حکومت نے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی درخواست واپس لے لی جب کہ عدالت نے کیس کی سماعت تین ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔ والد مشال خان نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی کھولی جائے، طلبا کی زندگی کی ضمانت دی جائے، تعلیم کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور طالبعلموں کی حفاظت کا بندوبست کیا جائے۔