پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے قطری شہزادے کو ایک اور خط لکھ دیا۔
قطری شہزادے شیخ حمد بن جاسم بن جابر الثانی کو لکھے گئے تازہ ترین خط میں کہا گیا ہےکہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم سمجھتی ہے کہ حسین اور حسن نواز کے بارے میں قطری شہزادے کے خط کی تصدیق اور تحقیقات اہم ہے۔ خط میں قطری شہزادے پر واضح کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ دائرہ اختیار تسلیم کر لیا گیا یا رضا کارانہ طور پر کوئی پیشکش کی گئی تو اسے یکطرفہ طور پر واپس نہیں لیا جا سکے گا لہٰذا نوٹ کرلیں کہ آپ جو بھی مؤقف اختیار کریں گے اس کا آپ کے پچھلے خطوط کے مواد کی ساکھ، شہادت، گواہی اور ان کے سماعت پذیر ہونے پر اثر مرتب ہو سکتا ہے جب کہ بصورت دیگر یہ خطوط غیر مصدقہ رہیں گے۔
گزشتہ خط و کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے جے آئی ٹی نے لکھاہے کہ جے آئی ٹی آپ کےخطوط کی تصدیق اور ان کی تحقیقات چاہتی ہے، یہ خطوط آپ کی اپنی رضامندی سے مدعا علیہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جمع کرائے تھے۔ خط میں جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو لکھا ہے کہ تحقیقات کے دائرے، نوعیت اور جے آئی ٹی کی ضرورت کے مطابق آپ کا بیان ریکارڈ کرنے کا دائرہ وسیع اور اس پیشکش سے مختلف ہے جو آپ نے اپنے حالیہ خط میں کی تھی۔ قطری شہزادے نے جے آئی ٹی کو لکھے گئے خط میں دائرہ اختیار کا سوال اٹھایا تھا۔
اس بارے میں جے آئی ٹی نے جواب دیا ہے کہ حسین نواز اور حسن نواز کی جانب سے اختیار کردہ مؤقف کی حمایت میں رضاکارانہ طور پر دستخط کے ساتھ خطوط فراہم کرکے الثانی نے سپریم کورٹ اور ساتھ ہی جے آئی ٹی کے دائرہ اختیار کو تسلیم کیا ہے۔ نتیجتاً آپ نے پاکستان کے قوانین کی وسعت اور ان پر عملدرآمد کو بھی قبول کیا ہے۔ جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو مزید لکھا کہ آپ کی طرف سے جوابات موصول ہونے میں تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی سپریم کورٹ کی جانب سے جے آئی ٹی کو تحقیقات مکمل کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کے لیے دیئے گئے محدود وقت کا غیر ضروری نقصان ہوا ہے لہٰذا ہم ایک مرتبہ پر آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ فیکس یا پھر ای میل کے ذریعے اپنا جواب جمع کرائیں جس کے بعد آپ دستخط شدہ اصلی دستاویزات کوریئر کے ذریعے بھجوا سکتے ہیں۔ جے آئی ٹی نے خط میں کہا ہم گزارش کرتے ہیں کہ ایسا کرنے میں ناکامی کی صورت میں سپریم کورٹ میں رپورٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے جے آئی ٹی آپ سے مزید کوئی رابطہ کیے بغیر آگے کی کارروائی کرے گی اور سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ جمع کرائے گی۔