جماہی لینا فطری اور غیراختیاری عمل ہے۔ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟ سائنس داں اس سوال کا حتمی جواب ابھی تک تلاش نہیں کرسکے، تاہم اس ضمن میں تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں سائنس دانوں نے جماہی کے دورانیے اور دماغ کے مابین ایک حیران کُن تعلق دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق انھیں یقین ہے کہ جماہی کے دورانیے اور علم و آگہی کے دوران تعلق موجود ہے۔ہ تحقیق اسٹیٹ یونی ورسٹی آف نیویارک سے وابستہ ڈاکٹر اینڈریو گیلپ اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ جو ممالیہ جتنی لمبی جماہی لیتا ہے اس میں فہم و ادراک کی صلاحیت اتنی ہی طاقت وَر ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ جماہی لینے کا عمل ممالیہ کی تمام انواع میں ہوتا ہے، جن میں انسان بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر گیلپ کہتے ہیں کہ ان کی تحقیق کے نتائج سے اس دیرینہ سوال کا جواب بھی ملتا ہے کہ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟ اس عمل سے دراصل دماغ پُرسکون ہوجاتا ہے۔
دوران تحقیق سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ چوہے، خرگوش، اور لومڑیوں میں جماہی کا دورانیہ مختصر جب کہ گوریلا، بندر، دریائی گھوڑے، اونٹ، اور ہاتھیوں کی جماہی طویل تر ہوتی ہے۔ انسانوں میں جماہی کا دورانیہ تمام ممالیہ میں سب سے زیادہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر گیلپ اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران ممالیہ کی 24 اقسام تعلق رکھنے والے 177 جانور وں اور انسانوں کا مشاہدہ کیا۔ انسان کی جماہی کا اوسط دورانیہ سات سیکنڈ پایا گیا۔ اس کے بعد افریقی نسل کے ہاتھی کی جماہی چھے سیکنڈ کے ساتھ سب سے طویل تھی۔ اونٹ پانچ سیکنڈ سے کچھ اوپر وقت تک جماہی لیتا ہے، جب کہ چمپانزی کی جماہی تمام ہونے میں پانچ سیکنڈ لیتی ہے۔
امریکی محققین کی تحقیق سے ظاہر ہے کہ لمبی جماہی زودفہمی، بہ الفاظ دیگر تیزدماغ کی علامت ہے۔ تو بس۔۔۔۔ دوستوں اور ہم کاروں کے سامنے خود کو تیزدماغ اور زودفہم ثابت کرنا ہو تو جماہی کو طویل کرلیجیے ! چاہے اس کے لیے آپ کو کُھلے منھ پر دیر تک ہاتھ رکھنے کی اداکاری ہی کیوں نہ کرنی پڑے