اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی صدر جوبائیڈن نے سابق صدر بل کلنٹن اوراوبامہ کے دور میں فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ اور ایران کے ساتھ جوہری ڈیل میں واشنگٹن کی نمائندگی کرنے والے رابرٹ میلے کو ایران کیلئے خصوصی ایلچی مقرر کردیا۔ غیر ملکی نشریاتی ادارے کے مطابق انہیں ایرانی حکومت سے امریکہ کے لیے زیادہ مراعات حاصل کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے جس کے بدلے میں امریکہ جوہری معاہدے میں واپس آنے پر غور اور پابندیوں میں نرمی کرے گا۔ عرب امریکی سربراہان نے میلے کے تقرر کا خیر مقدم کیا ہے جنہوں نے سابق صدر براک اوبامہ اور بل کلنٹن کے دور میں اسرائیل فلسطین امن معاہدے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انتونی بلینکن کا کہنا ہے کہ ’بائیڈن ایران کے ساتھ معاملات حل کرنے کے لیے ایک مضبوط ٹیم تشکیل دے رہے ہیں اور میلے ’دیرپا اور مضبوط‘ جوہری معاہدے کے لیے ایک اہم شخصیت ثابت ہوں گے۔ بلنکن کے ترجمان نیڈ پرائس کے مطابق انتظامیہ ایک ’لگن سے کام کرنے والی‘ ٹیم بنا رہی ہے۔ ’میلے نے ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا تھا۔ وزیر خارجہ مکمل طور پر پُرامید ہیں کہ وہ اور ان کی ٹیم ایک بار پھر یہ کر دکھانے میں کامیاب ہوگی۔ پرائس نے کہا کہ ’اگر ایران 2015 کے معاہدے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن پر پوری طرح کاربند رہنے کے لیے تیار ہوجائے تو امریکہ بھی ایسا ہی کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’بائیڈن اسے ایک دیرپا معاہدے کی تشکیل کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کریں گے جس کے ذریعے ایران کی سرگرمیوں کے بارے میں کچھ دیگر تحفظات پر بات کی جائے گی۔‘
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم اس سے بہت دور ہیں کیونکہ بہت سے اقدامات ابھی ایسے ہیں جن پر کام جاری ہے۔‘عرب سربراہان جو میلے کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہین، کے مطابق جب میلے نے فلسطین اسرائیل امن معاہدے پر کام کیا تو انہوں نے میلے کو ’مخلص اور متوازن‘ پایا۔
خیال رہے کہ امریکہ نے 2015 میں ایران کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت ایران اپنے جوہری پروگرام کو روکنے پر آمادہ ہو گیا تھا، تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براک اوبامہ انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے اس معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں۔
ٹرمپ کے اس فیصلے کو اپوزیشن نیشنل کونسل آف ریزسٹینس آف ایران کے رہنماؤں نے سراہا تھا جنہوں نے تہران کی جانب سے معاہدے کے برعکس جوہری صلاحیتوں کو توسیع دینے کے ثبوت فراہم کیے تھے۔
واشنگٹن میں عرب امریکن انسٹی ٹیوٹ کے صدر جم زوگبی جنہوں نے کلنٹن اور اوبامہ انتظامیہ کے دور میں میلے کے ساتھ کام کر رکھا ہے، نے بتایا کہ وہ (میلے) جس ایشو پر بھی بات کریں گے ’پیشہ ورانہ مہارت اور وضاحت‘ کے ساتھ کریں گے۔
’کوئی بھی راب میلے سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں معلومات نہیں رکھتا نہ ہی ان سے زیادہ معقول یا مخلص ہو سکتا ہے۔‘