سے کس طرح دنیا کا ورک کلچر بدل رہا ہے اس کا عکس ہم سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کاروباری افراد بھی اس جانب دلچسپی لیتے نظر آ رہے ہیں۔ پہلے زمانوں میں پارٹ ٹائم نوکریوں کے لئے
پٹرول پمپ‘ گروسری سٹورز یا پیزا ڈیلیوری جیسی جگہوں کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ بیرون ملک جا کر بھی لوگ فل ٹائم یا پارٹ ٹائم ٹیکسی چلا کر اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالتے تھے۔ ایک وقت تھا جب لوگ امریکہ اور یورپی ممالک جانے کے لئے ہر طرح کا خطرہ مول لینے کو تیار ہو جاتے تھے۔ میں ایک ایسے نوجوان کو جانتا ہوں جو آج سے بیس برس قبل زندگی اور موت کے دریا سے گزر کر اٹلی پہنچا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ والد صاحب انتقال کر گئے تھے اور گھر کے اخراجات پورے کرنا بچوں کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ نوجوان کئی ہفتوں تک مختلف ممالک کی سرحدوں اور سمندروں کی حدود میں رہا۔ ایسا بھی وقت آیا کہ کئی کئی ہفتے انہیں لانچوں میں ٹھونس کر رکھا گیا اور اوپر سے سوکھی ڈبل روٹی کے چند ٹکڑے پھینک دئیے جاتے۔ بہت سے نوجوان تو بیماری اور بھوک سے ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور اس نوجوان سمیت جو چند ایک اٹلی پہنچ پائے‘ انہیں بھی اگلے آٹھ دس برس مزید سختیاں اور مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔ یہ جو کماتے تھے اس کا اسی فیصد تو انہیں ملازمت دینے والا ہی ان سے لے لیتا۔ کئی مرتبہ تو اس نوجوان کو پاکستان سے پیسے منگوانے پڑے۔ جن لوگوں نے اسے باہر بھجوایا تھا ان کا لاکھوں کا قرضہ بھی واجب الادا تھا؛ چنانچہ ابتدائی کئی برس وہ قرضہ ادا کرنے میں گزر گئے۔
دس برس بعد جا کر وہ نوجوان کچھ سیٹ ہوا لیکن اتنی دیر میں پوری دنیا دہشت گردی کی جنگ کا شکار ہو چکی تھی اور عالمی کساد بازاری زور پکڑ چکی تھی‘ اس لئے اٹلی پہنچ کر بھی اس نوجوان کے وہ خواب پورے نہ ہوئے جس کے لیے اس نے دس برس قبل اپنی جان جوکھوں میں ڈالی تھی۔ آج مگر حالات مختلف ہیں۔ ٹیکنالوجی نے ساری کہانی ہی الٹ دی ہے۔ جن ڈالروں کو کمانے کے لئے لوگ اپنے زیور‘ کھیت اور گھر بیچ دیتے تھے اور ترقی یافتہ ممالک میں جا کر چھوٹے چھوٹے کام کرتے تھے‘ ڈالر کمانے کے وہ مواقع آج خود چل کر ہر ملک اور ہر شخص تک پہنچ گئے ہیں۔ اب کوئی بھی شخص جس میں کوئی صلاحیت ہے‘ وہ انٹرنیٹ کی مدد سے گھر بیٹھا روزانہ سینکڑوں ڈالر کما سکتا ہے۔ سیالکوٹ کے نواحی گائوں کی مثال لے لیں۔ یہاں پر دیگر دیہات کی طرح لوگ کھیتی باڑی کرتے‘ اور جانور رکھ کر اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہاں کے ایک نوجوان نے آن لائن کمائی کے بارے میں کہیں پڑھا تواس نے بھی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے میٹرک تھرڈ ڈویژن میں پاس کیا تھا اور اس سے آگے نہیں پڑھ سکا تھا۔ وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اور اس کے گھر کی دیواریں بھی کچی مٹی کی بنی ہوئی تھیں۔ اس نے سوچا‘ وہ ایسا کیا کر سکتا ہے جس سے وہ آن لائن آمدنی حاصل کر سکے۔ اس کے بھائی نے اسے بتایا کہ فیس بک‘ یوٹیوب اور دیگر چینلز پر بہت سے لوگ نئے نئے کھانے پکا کر ان کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں جس سے انہیں آمدنی ہوتی ہے۔
اس نوجوان کو کئی طرح کے کھانے بنانے آتے تھے۔ اس نے یوٹیوب پر ایک چینل بنایا اور ایک نئے دیسی انداز میں کھانے بنا کر ان کی ویڈیوز شیئر کرنا شروع کر دیں۔ عموماً کوکنگ کی ویڈیوز جدید قسم کے باورچی خانوں میں بنائی جاتی ہیں جہاں ہر قسم کی الیکٹرانکس اشیا یعنی اوون‘ جوسر مشینیں وغیرہ موجود ہوتی ہیں لیکن اس شخص نے گائوں کے سادہ طرز زندگی کو متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مٹی کے کچے مگر خوبصورت برتنوں میں کھانے پکاتا حتیٰ کہ پیزا بھی خاص قسم کے مٹی کے اوون نما گڑھے میں بناتا جس سے اس کا چینل چل نکلا اور آج وہ اپنے گائوں میں بیٹھا ماہانہ پانچ سات لاکھ روپے کما رہا ہے۔ وہ ہفتے میں صرف چار پانچ ویڈیوز بناتا ہے۔ کھانا بنانے کے بعد وہ اسے اپنے باریش معمر والد کو چکھاتا ہے۔ والد صاحب کھانا چکھتے ہی ‘زندہ باد پتر‘ کا نعرہ لگاتے ہیں اور یوں اس کی ویڈیو ختم ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک اور خاص بات ہر کام سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ہے جس کی وجہ سے اس کے ہر کام میں برکت پیدا ہو جاتی ہے۔یہ تو صرف ایک مثال تھی‘ ایسے سینکڑوں ہزاروں لوگ مختلف طرح کے کام کر کے آن لائن آمدنی کما رہے ہیں۔ مثلاً جن لوگوں کو ترجمہ اور کچھ لکھنا آتا ہے وہ فائیور جیسی ویب سائٹس سے منسلک ہیں اور بلاگز لکھ کر پیسے کما رہے ہیں۔ جن لوگوں کو ویب سائٹ ڈیزائن کرنا آتی ہے یا جو موبائل ایپلی کیشنز بنانا جانتے ہیں
ان کی بھی بہت زیادہ مانگ ہے۔ اصل چیز ٹیلنٹ ہے۔ سب سے پہلے آپ نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ کون سا کام ہے جو آپ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں۔ جو کام آپ کو نہیں آتا اس کے لئے آپ کسی دوست کی مدد لے سکتے ہیں۔ دو یا دو سے زیادہ افراد گروپ کی شکل میں بھی کام کر سکتے ہیں۔ امریکہ میں فری لانسنگ اس قدر مقبول ہو چکی ہے کہ ہر دس میں سے سات افراد روایتی نوکریوں کی بجائے گھر بیٹھے آن لائن کام کر رہے ہیں۔ اس کے انہیں کئی فائدے ہوتے ہیں مثلاً یہ کہ وہ دفتر جانے اور ایک خاص وقت کے لئے کام کرنے کی بجائے اپنی مرضی کا کام اور مرضی کا وقت خود منتخب کرتے ہیں۔ مثلاً اگر فائیور یا اپ ورک ڈاٹ کام پر انہیں دو ایسے کام نظر آتے ہیں جن میں ایک کام کے انہیں پچاس ڈالر مل رہے ہیں اور وہ انہیں دو گھنٹے میں مکمل کر کے دینا ہے جبکہ دوسرا کوئی شخص وہی کام چالیس ڈالر لیکن بارہ گھنٹوں کے اندر کروانا چاہتا ہے تو ان کی مرضی ہے کہ اگر وہ دو گھنٹے والا منتخب کریں تو دس ڈالر زیادہ کما سکتے ہیں لیکن اگر ان کے پاس وقت نہیں یا اگر وہ کسی شادی میں جا رہے ہیں تو وہ دس ڈالر کم کما لیں گے لیکن بارہ گھنٹوں کے اندر دوسرے بندے کو وہ کام کرکے دے دیں گے۔ اس طرح کی چوائسز نوکریوں میں نہیں ملتیں؛ تاہم فری لانسنگ میں کچھ چیزیں نہیں بھی ملتیں۔ مثلاً میڈیکل الائونس وغیرہ جو روایتی نوکریوں میں ملتے ہیں۔ اسی طرح فری لانسنگ میں آپ کو معیار کا خاص خیال رکھنا ہوتا ہے جبکہ نوکری میں لوگوں کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ
آٹھ گھنٹے کسی طرح پورے کر لیں کہ تنخواہ تو مل ہی جائے گی؛ تاہم ایک بڑا فرق جو نوکری اور فری لانسنگ میں ہے وہ یہ کہ نوکری میں آپ ایک لگی بندھی تنخواہ وصول کرتے ہیں جبکہ فری لانسنگ ایک کاروبار کی طرح ہے‘ آپ جتنا زیادہ کام پکڑیں گے اتنی زیادہ آمدنی حاصل ہو گی۔ آپ اپنے ساتھ مزید لوگ شامل کر کے چھوٹا سا دفتر بنا سکتے ہیں اور اضافی کام دیگر لوگوں سے کروا کر اس کام کو کاروبار کی طرح چلا سکتے ہیں؛ تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں۔ لوگ شروع میں بہت جوش و خروش سے آتے ہیں اور چند ہفتوں بعد ٹھنڈے ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کوئی بھی کامیابی پہلے دن نہیں ملتی۔ جس طرح کے ایف سی کا مالک فرائیڈ چکن کی ریسی پی لے کر ایک ہزار لوگوں کو چکھانے ان کے پاس چل کر پہنچا‘ تب جا کر کسی کو اس کا چکن پسند آیا اور اسے سرمایہ کاری حاصل ہو گئی‘ اسی طرح فری لانسنگ بھی مستقل مزاجی‘ لگن اور اعلیٰ معیار مانگتی ہے۔ آپ خود سوچیں کیا آپ کسی ایسے شخص کو پیسے دیں گے جو آپ کی مرضی کے اُلٹ آپ کو کام کر کے دے گا۔ آپ جتنے بھی کامیاب فری لانسرز کی کہانی پڑھیں گے وہ سب آپ کو یہی کہتے ملیں گے کہ کئی کئی مہینے انہیں کام نہیں ملتا تھا بلکہ کئی مرتبہ تو وہ بہت کم پیسوں یا مفت بھی کام کرکے دے دیتے تھے تاکہ ان کی پروفائل اچھی بن جائے اور لوگ ان کے اکائونٹ پر اچھے تاثرات لکھیں۔ یہ پروفائل اور تاثرات کلائنٹ کے لئے بہت زیادہ معنی رکھتے ہیں۔ وہ اسی شخص کو کام دیتے ہیں جس کو زیادہ سٹار ملیں ہوں اور لوگ مطمئن دکھائی دیے ہوں؛ چنانچہ صبر‘ مسلسل محنت اور بہترین معیار قائم رکھ کر آپ اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔