لاہور (ویب ڈیسک) روایتی دور میں سفید کالر لوگوں کی گفتگو کا ہر انداز روایتی ہوتا تھا۔ اپنی بہت سی مجبوریوں اور مصائب کو بھی چاندی کے اوراق میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا تھا کہ مبادا کہیں اپنی بے بسی کی تصویر کو ایک دم سے ظاہر نہ کردیں اگر کوئی ایسی اپنی تصویر دکھانا نامور خاتون صحافی رخسانہ رخشی لندن سے اپنی خصوصی تحریر میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجبوری ہوتا تو اس تصویر کو پھولوں کی لڑی میں پروکر دکھایا جاتا۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ روزگار اور دشمن بار بار نہیں ملتا کہیں اگر یہ مل جائے تو اسے پھر چھوڑنا نہیں چاہئے۔ یعنی موقع ہاتھ سے نہیں دینا چاہئے کہ شاید ہی دوبارہ ہاتھ آئے۔ اس لئے روائتی گھرانوں میں اتفاق سے گھر کا کوئی فرد صاحب روزگار ہوتا تو اسے وہی پذیرائی ملتی جو گھر کی لاڈلی بہو کوامید سے ہونے پر ملتی ہے۔ پھر تو یوں کہا جاتا ہے کہ خیر سے ہمارے صاحبزادے ’’روزگار سے ہوگئے‘‘۔ بالکل اسی انداز میں جیسے لاڈلی بہو کے پائوں بھاری ہونے پرکہا جائے کہ ’’خیر سے ہماری بہو امید سے ہوگئیں‘‘۔ بات پھر امید کی ہو تو کئی امیدیں باندھ لی جاتی ہیں۔ اس طرح ایک صاحبزادے کے روزگار ہونے سے خاندان بھر کی امید، خواہشات اورتمنائیں تک اس ایک برسر روزگار والے سے باندھ لی جاتی ہیں پھر تو موسم تبدیل ہو تو موسمی پیرہن و پہناوے سے لیکر موسمی پھل و سبزی تک کی امید اس سے باندھ لی جاتی ہے کہ بس اب یہ ذمہ دار ہے ہر جائز و ناجائز خواہشات پوری کرنے کا۔ روزگار ہونے سے ہی اس کے سہرے کے پھول بھی سجنے کی امید بندھ جاتی ہے یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ روزگار سے ہی کاروبار زندگی رواں دواں رہتا ہے۔ مسائل کافی حد تک کم ہوجاتے ہیں۔ روزگار کا ذینہ آج کل صرف تعلیم کے معیار کو برقرار رکھ کر منزل روزگار تک پہنچانے کے کام آرہا ہے۔ پہلے کبھی’’تعلیم و تربیت‘‘ کا ساتھ ہوا کرتا تھا مگر آج کے دور میں ’’تعلیم و روزگار‘‘ کا ساتھ چل رہا ہے۔ تعلیم کے درجات کی وجہ سے روزگار بھی چلتا ہے کہ تعلیمی حیثیت کے مطابق آپ کو نوکری بھی مل جاتی ہے مگر دوسری طرف دیکھا جائے تو پورے عالم میں جھگڑا بے روزگاری کا چل رہا ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ اور کم تعلیم یافتہ تک رو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں بیروزگاری، مہنگائی اور ناخواندگی کا زہر مسئلہ بن کر معاشرتی جڑوں میں پھیل رہا ہے۔ یہ مسائل تو ہیں اپنی جگہ مگر ملک میں بدعنوانی، دہشت گردی، لاقانونیت، جیسے شدید نوعیت کے مسائل کی وجہ سے بھی ہمارا ملک مشکلات کا شکار ہے۔عالمی دنیا کے دانشور اپنے اپنے ملک کے مسائل کے حل کیلئے منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ ایسی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں جو بے روز گاری کے مسائل کے حل میں مدد کرسکیں۔ غربت بے روزگاری ہر ملک میں پھیل رہی ہے مگر وہاں اقدامات کئے جارہے ہیں۔ ہم کچھ اپنے ملک کیلئے کریں تو کیا کریں۔ ملک کے کرتا دھرتا تو کچھ کرنے سے رہے ملک تقسیم سے پہلے اور بعد میں جغرافیائی لحاظ سے تو تھوڑا بہت بدلا ہے مگرتعلیم و تربیت و تہذیب کے لحاظ سے بہت پیچھے چلا گیا۔ کونسی ترقی، نہ ہی تعلیمی نظام میں بدلائو، نہ ہی معاشی ترقی، نہ ہی بہتری کے ڈھانچے اور نہ ہی ملک مسائل کے سانچے سے باہر آسکا۔ہم ملک کو بے روزگاری کے مسائل سے کیا آزاد کریں گے یا کونسی حکمت عملی اپنائیں گے ہم تو ابھی سماجی اور معاشرتی اخلاقی بحران سے باہر نہ آسکے آئے دن کوئی نہ کوئی صحت سے متعلق گمبھیرتا رہتی ہے۔ ہسپتال میں مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مررہے تھے مگر اب مریض بچے غلط انجیکشن سے اور جوان مریض خواتین عصمت دری کے بعد انجیکشن لگا کر مار دی جاتی ہیں۔ باقی کسر ڈاکٹرز کی آئے روز کی ہڑتال نکال دیتی ہے یعنی بے روزگاری کا جواز کئی قسم کی دشمنیاں پالنا ہے۔غربت بے روزگاری صرف تیسری دنیا کا نصیب نہیں ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی اس کی زد میں آتے ہیں حالانکہ امریکہ اس کی لپیٹ میں کبھی نہ آیا مگر سن گن ہے کہ وہاں بھی کئی ہزار افراد اسکی زد میں آچکے ہیں۔ یورپ کے کئی ممالک میں غربت اور بے روزگاری دن بہ دن بڑھ رہی ہے مگر وہاں ان مسائل کے حل تلاش کئے جاتے ہیں اس کیلئے حکومت سے لے کر کئی فلاحی تنظیمیں اور سوشل ورکر تک اپنی اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ کئی لائحہ عمل تیار کئے جاتے ہیں جس پر پھرعمل پیرا ہوا جاتا ہے۔ کئی بڑی بڑی فنانس کمپنیاں حکومت کو آئیڈیاز پیش کرتی ہیں کہ غربت، بے روزگاری اور بے گھر لوگوں کی مدد ہوسکے۔ ویسے بھی یورپین ممالک میں عوام خوب آواز اٹھاتی ہے۔ شعور و آگہی ہر دل و ذہن رکھتا ہے مگر اسے استعمال کرنا بہادری ہے، ڈر کر کیا زندگی گزارنا ۔ عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہونا چاہئے کہ ہمارا احتجاج ایک بڑی تبدیلی لاسکتا ہے مگر پاکستانی قوم صرف آپس میں شکوے شکایت یا پھر میڈیا تک وہ بھی میڈیا کے پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ ہم کس قدر بے روزگاری، مہنگائی و غربت کے ہاتھوں تنگ ہیں، بقول فیصل واڈا کے کہ عوام ہمیں کے ساتھ بھی قبول کریں گے، چاہئے پیٹرول دو سو روپے مہنگا بھی ہو جائے، پھر بھی برداشت کریں گے۔ فیصل واڈا نے کہنے کو تو یہ بات کہہ دی مگر ایک طرف حکومتی ذرائع کہتے ہیں کہ پیٹرولیم کی قیمت نہیں بڑھائی جائے گی پھر بھی عوام پر مہنگائی کے تابڑ توڑ حملے رہتے ہیں۔یورپی ممالک میں انڈوں یا کھیرے کی قیمت بڑھ جائے تو عوام میں چہ مگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں پھر جب مہنگائی زیادہ ہو تو عوام سراپا احتجاج بھی بن جاتے ہیں اور فیصل واڈا کی طرح اگر کوئی وزیر کسی بھی مہنگائی کی طرف اشارہ کرے تو پھر اس کی خیر نہیں ہوتی۔ اسے عوام کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غربت بے روزگاری کی واضح تعریف تو یہ ہے کہ عام شہری کو عام سہولیات زندگی تو کیا اسے زندگی کی بنیادی ضرورتیں میسر ہوں اگر اسے گھر چلانے کو نوکری ہی نصیب نہ ہو تو وہ کسی سہارے زندگی گزارے۔ پورے عالم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ عام سی نوکری کررہے ہیں۔ اسی لئے کہ جو روزگار بھی ملے تو اسے سنبھال رکھو زندگی بھی تو چلانی ہے نا