اسلام آباد: پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ کامیابی سے جاری و ساری ہے لیکن کچھ ممالک اور آبزرورز چین اور پاکستان کے ساتھ مخاصمت یا ذاتی مفادات کی بناءپر منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ پاکستان کو قرضے کے جال میں جکڑنے کے لیے چین نے شروع کیا ہے اور اس سے پاکستان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
برطانوی اخبار ٹیلیگراف کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان نے جو 5.9ارب ڈالر کا قرض لیا ہے تووہ بہت طویل مدت میں واپس ادا کرنا ہے چنانچہ اس کا پاکستانی معیشت پر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا۔ یہ منصوبہ قرض کا جال نہیں بلکہ پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا ایک وسیلہ ثابت ہو گا۔ اب تک اس منصوبے کے تحت چین نے 18.9ارب ڈالر کی فنڈنگ کی ہے، جس میں سے صرف یہی 5.9ارب ڈالر واجب الادا قرض ہے، جس پر پاکستان کو صرف 2فیصد سود ادا کرنا ہے اور یہ سود بھی 2021ءسے لاگو ہونا شروع ہو گا۔ باقی تمام رقم توانائی کے منصوبوں کے لیے چینی کمپنیوں اور دوسرے شراکت داروں نے مہیا کی ہے جو قرض نہیں بلکہ سرمایہ کاری ہے۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے گوادر ایسٹ بے ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے جو 14کروڑ 30لاکھ ڈالر قرض دیا گیا ہے وہ بھی بلا سود ہے۔ مزید ویلفیئر کے منصوبوں کے لیے فراہم کیے گئے 2کروڑ 90لاکھ ڈالر بھی بلا سود قرض ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چین سی پیک پر جتنی رقم خرچ کر رہا ہے اس کا 20فیصد سے بھی کم واجب الادا قرض ہے جبکہ 80فیصد سے زائد رقم مختلف مالی اداروں کے ذریعے عالمی قوانین کے مطابق مختلف منصوبوں پر خرچ کیے جا رہے ہیں۔ چین کا یہ 5.9ارب ڈالر کا قرضہ پاکستان کے غیرملکی قرضوں کا صرف 6فیصد بنتا ہے۔
گویا پاکستان سی پیک کے تحت صرف 6فیصد تک چین کا مقروض ہو گا، اس کا باقی تمام قرض دیگر ممالک اور مالیاتی اداروں سے لیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ سی پیک کے پاکستان کے لیے فوائد کہیں زیادہ ہیں۔ 2015ء سے اب تک سی پیک کے تحت براہ راست 70ہزار نئی ملازمتیں پیدا ہو چکی ہیں جن میں سے 60ہزار پاکستانیوں شہریوں کو ملی ہیں۔ 2030ء تک اس منصوبے کے تحت 8 لاکھ نوکریوں کے مواقع پیدا ہوں گے جس سے پاکستان میں بیروزگاری انتہائی کم ہوجائے گی۔ پاکستان کا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک انتہائی خستہ حال ہے جس کی وجہ سے ہر سال جی ڈی پی کا 3.5 فیصد نقصان ہوتا ہے۔ سی پیک کے تحت بننے والی راہداریوں، شاہراہوں اور ریلوے ٹریک کے منصوبوں سے پاکستان کا ٹرانسپورٹ نیٹ ورک بہترین حالت میں آجائے گا اور یہ نقصان نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ اس سے کتنی بچت ہوگی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق 2017ء میں پاکستان کا جی ڈی پی 304 ارب 95 کروڑ ڈالر رہا۔ چنانچہ اس اوسط سے پاکستان کو خستہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کے باعث 10 ارب 67 کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔