تحریر: ع.م بدر سرحدی
ایجنسیوں کے لئے یہ انتہائی اہم سوال ہے کے بمبار یوحنا آباد میں چرچ کے گیٹ تک کیسے اور کس زریعہ سے پہنچے کون لایا، جو بعد میں دو پکڑے گئے کیا وہی سہولت کار تو نہیں تھے ،مگرانہیں تو تفتیشی ٹیم نے بے گناہ قرار دے دیا ہے اس طرح اب بمباروں کو چرچ تک لانے والے اور یہاں موجود سہولتکا ر ہمیشہ کے لئے مامون ہوگئے ، اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ دونوں بمبار زمین سے اوپر آئے ہیں، چرچ پر حملہ اور ١٩، جانوں کا صدمہ ، یہ کوئی پہلا حملہ نہیں تھا ١٤ ،برس سے ہو رہے ہیں ،جن میں ٥٥،ہزار سے زیادہ بلا تخصیص نہتے عوام مارے گئے…. لیکن یہاں دھماکوں کے بعدکئی دن تک آبادی پر بیرونی حملہ کا خوف مسلط رہا ،جب اس میں کمی آئی تو پولیس گردی شروع ہو گئی ،اس وقت ڈھائی سے تین سو لوگ بتائے جاتے ہیںجو پولیس کی حراست میں ٔ اور تا دم تحریر پکڑ دکھڑجاری… دوسرا اہم سوال تو یہ بھی کے کرائسٹ چرچ کے گیٹ پر کہ وہ بند تھا پہلے تین فائر ہوئے یہ فائر کس نے کئے کون تھا ،اگر تو یہ فائر بمبار نے کئے تو اسلحے کی باقیات کہاں گئی ،
… فائر ہونے پر ایک شخص باہر نکلا کہ دیکھے کیا ہوأدوسرا چھوٹھے دروازے پر کھڑا کہ عین اُسی لمحے بمبار نے خود کو اُڑا دیا پہلے وہ دونوں شدید زخمی ہوئے۔
پھر میں نے دیکھا ،گیٹ پر بیٹھا سپاہی ایک اور شخص وہیں گرے پڑے ہیں سپاہی کی مٹھی کھلی تھی جس میں ابھی بھنے چنے بھی تھے جو وہ بیٹھا چبا رہا تھا اور دروازے کے سامنے ایک خاتون اور مرد کی لاش اور قریب ہی بمبار کی گھٹنے سے نیچے ٹانگ دیکھی اور کھوپڑی کا کچھ حصہ تین لاشیں اور دیکھیں …. یہا ں قیامت کا سما تھا چیخ و پکار تھی سب لوگ ہی حواس کھو بیٹھے تھے ،کرائسٹ چرچ کے سامنے دھماکے کی آواز کے ساتھ ہی دوسرا دھماکا کیتھولک چرچ کے گیٹ پر ہو گیا یہاں ایک سپاہی،دوسراآکاش جس نے بمبار کو پکڑا اور دو دکاندار بتائے جاتے ہیںجو شہید ہوئے، بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے جن میں سے چند جانبر نہ ہو سکے ،مگر یہ سب راہ گیر اور دکانوں پر کھڑے یا خریداری میں مصروف تھے ،چرچ کے شمیم بھٹی اور خالد زخمی ہوئے ،یہ سوال ہمیشہ جواب کاطلبگار ہو گا کہ کرائسٹ چرچ کے سامنے فائرنگ کرنے والا کون تھا اُسے زمین نگل گئی یا اُڑ کر رو پوش ہو گیا….اب جو دو مشتبہ پکڑے اُن کے ساتھ جو کچھ ہجوم نے کیا انتہائی قبیح عمل تھا جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور اس سلسلہ میں پولیس کو بھی بری زمہ قرار نہیں دیا سکتا ،جتنی تعداد میں مظاہرین تھے اتنی ہی تعداد میں بلکہ زیادہ پولیس تھی مگر وہ بھی کھڑے بھیانک منظر دیکھتے رہے ہجوم میں کسی کے پاس اسلحہ نہیں تھا پولیس اگر چاہتی تو وہ بچائے جاسکتے تھے محض دو چار ہوائی فائر ہی کر دیتے مگر اُن کی خاموشی میں کیا مصلحت تھی یہ بھی راز ہے ،. پھر یہ بھی قابل فکر ہے کہ اس ہجوم میں صرف یوحنا آباد کے باسی نہیں تھے….. زرا سوچئے کے ایسے مواقع پر مظاہرین کیا کرتے ہیں، واقع فرانس میں ہوأ یا امریکہ میں جلوس یہاں نکلے اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہو جاتا ہے۔
ڈنمارک میں توہین آمیز خاکے شائع ہوئے گھیراؤ جلاؤ لاہور میں ایک بنک جلایا ،اسملی ہال کو آگ لگائی ،٩،اپریل ٢٠٠٨ کو کراچی میں پرتشدد ہنگامے جس میں پانچ زندہ جلائے گئے اور ١٤،مزید مارے گئے ٥٣ ،گاڑاں جلائی گئیں ،جلانے والے اور جلنے دونوں حکمران قوم کے افراد تھے اِس لئے….، مگر یوحنا آباد میں دو گرجا گھروں پر بیک وقت دو دھماکے ہوئے ١٥، موقع پر مارے گئے شدتِ جذبات سے مغلوب ہوکر بہت بڑی تعداد میں لوگ گھروں سے نکلے جو کچھ ایسے مواقع پر ہوتا ہے ، گھیراؤجلاؤں یہاں بھی ہوأ،یہ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آزاد مگر یہ غلط یہ ہرگز آزاد نہیں یہ تو ،٢١ویں صدی میں بھی غلام ہیں…..اگر ماضی میں ہونے والے ایسے واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے ، تو پھر یہ تسلیم کریں کہ یوحنا آباد کے مظاہریں اسی معاشرے کا حصہ ہیں، یہ کسی ترقی یافتہ ملک کے باسی نہیں اور نہ باہر سے آئے ہیں کہ ان کی سوچ مختلف ہوگی جو کچھ ایسے موقعوں پر ہوتا ہے وہی ہوأ … ، حکمران قوم چاہے کچھ بھی کریں، گوجرہ میں ان غلاموں سے ٨،لوگ زندہ جلا دئے گئے ،مگر حکمران قوم کے کسی فرد کو سزا نہیں دی جاسکی پاکستان کی تاریخ اِن غلاموں کے خون سے رنگین ے اِ ن لوگوں کا یہ بھی المیہ ہے کہ یہ پھر بھی مصر ہیں کہ وہ آزاد ہیں ، یوحنا آباد میں دو ایم پی ایز رہائش پذیر ہیں ، ایک مٹی کا مادھو سینٹر وزیر بھی ہے ایک اور صوبائی وزیر بھی…. تو بھی پولیس گردی جاری ہے ،اب تک بے شمار لوگ ماورائے عدالت قتل کئے جاچکے ہیں ،تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ کسی حکمران قوم کے فرد کو سزا دی گئی ہو ،یوحنا آباد کی ایک لاکھ سے زائد آبادی اس وقت پولیس گردی کا شکار ہے۔
چھاپے اور گرفتاریاںدن کے وقت کیوں نہیں ؟ بھلا دن کے وقت کون روک سکتا، مگر رات کو آتے ہیں ،جہاں جی چاہا دیوار کے ساتھ سیڑھی لگائی اور چھلانگ لگا کر چار دیواری کا تقدس….، ظاہر ہے جب یہ دیوار پھلانگ کر اندر پہنچتے ہیں تو خواتین چیخ وپکار کرتی ہیں کو بھی ہراساںکرتے ہیں۔ چار دیواری کا تقدس بھی حکمران قوم کا ہوگا یہ غلاموں کی چار دایواری کا تقدس کیا ….١٥، ہلاکتیں پہلے زخمیوں میں سے چار، اس طرح ، ١٩ ، جاںبحق، یہ لوگ سی ایم کے ووٹر بھی تھے کہ اسی حلقہ سے سی ایم کامیاب ہوئے،مگر یہاں اجتمائی طور پر بھی تعزیت کے لئے نہیں آئے جبکہ للیانی میں ،نعیم،محمد نعیم اور پھر حافظ محمد نعیم کے گھر گئے،اس میں اعتراض والی کوئی بات نہیں بر سبیل تذکرہ کر دی کہ سی ایم کو اس بہت بڑے سانحہ پر یہاں بھی آنا چا ہئیے تھا…۔، مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا جس کا بیشتر عوام کو تجربہ اور مشاہدہ بھی ہوگا، کہ ایک بس میں یا کہیں میلے ٹھیلے میں کوئی جیب کترا پکڑا جاتا ہے کوئی اُسے تھپڑ مار رہا ہے تو کوئی گھونسا ، کہ اس شور شرابے میں اُس کا کوئی ساتھی بھی آ کر اسے تھپڑ مارتے ہوئے گریبان سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کرنے کے لے جاتا ہے اور بس بات ختم …. ،تو کیا ایسا نہیں کہ سہولت کار بھی وہیں تھے اور جب دیکھا کہ بات بگڑ جائے گی ،دیگر سہولتکاروں کے لئے مشکل ہوجائے گی انہیں ختم کر دیا جائے کہ عوام کی اور ایجنسیوں کی توجہ ان کی موت پر ہو گی اور سب کچھ پردے میں ہی رہے گا۔
اب کار سوار خاتون جس نے دو انسانوں کو کچل دیا معصوم ہوگئی،یہ پہلا واقع ہے کہ کسی خاتون نے ہجوم پر گاڑی چڑھا دی،جب ہنگامہ کی وجہ سے روڈ بند تھا تنہا عورت ہجوم پر کیونکر چڑھ آئی پا کستان کی تاریخ سے ایسے کسی واقع کی مثال لاکر اس خاتون کو نظر انداز کیا جا سکتا ورنہ …….. خیر اب تک جو ہوأبہت ہی برا ،مگر اب پولیس گردی شروع ہوگئی ،یہ نہیں ہونا چاہئیے،اگر کوئی مجرم ہے اُسے دن کی روشنی میں لواحقین کو بتا کر ….یہ لوگ جنہیں رات کی تاریکی میں اُٹھایا جا رہا ہر گز دہشت گرد نہیں ،اگر مار کر کسی نالے میں پھینک دیا جائے تب بھی کچھ نہیں ہوگا…کہ ان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ پولیس گردی سے ٹکر لیں ، اس پولیس گردی سے یوحنا آباد میں پھر خوف طاری ہے ،جوان ،بوڑھے،خواتین سب سہمے ہوئے ہیں ،خصوصاّ دس سال تک کے بچے زیادہ سہمے ہوئے ہیں۔
تحریر: ع.م بدر سرحدی