تحریر: پروفیسر رفعت مظہر
جتنی ”افواہ ساز” فیکٹریاں پاکستان میں ہیں شاید دنیا میں اور کہیں نہیں ہوں گی۔ شایدیہ واحد ”جنس” ہے جس میں پاکستان خودکفیل ہے۔ ہمارے لکھاری چسکے لے لے کر سازشی تھیوریوںکو جنم دیتے رہتے ہیں۔ سیاسی قوتیں باہم دست وگریباں تو مِڈٹرم الیکشن کی باتیں، حالات بہتری کی جانب گامزن ہوں تو سیاسی وعسکری قیادت کے مابین انفاق وافتراق کی جستجو، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو تو کاؤنٹ ڈاؤن شروع اور دھرنا ہو تو امپائر کی ”انگلی ”کی جستجو عسکری قیادت سیلاب زدگان کی مدد کرے ،آپریشن ضربِ عضب کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کرے ،بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی سرکوبی کے لیے صبح ومسا تگ ودَو کرے۔
پاک چائنا اقتصادی راہداری کے لیے ہرقسم کی قربانی دینے کااظہار کرے اور کراچی کی روشنیاں لوٹ انے کا ارادہ کرے تو پھر شورِ قیامت کہ مرکزی حکومت محض عضوِ معطل ،سب کچھ فوج کے ہاتھ میںاورکوئی دن جاتاہے جب ایک دفعہ پھر پاکستان کی فضائیں ”میرے عزیزہم وطنو! ”سے گونج اُٹھیںگی ۔ایک محترمہ ، جن کا یہ عالم کہ ”الجھاؤ ہے زمیں سے ،جھگڑاہے آسماںسے” اُنہوںنے تو قوم کومتنبہ کربھی دیاکہ ”پاکستان میں ”منی مارشل لائ” لگ چکا۔ محترمہ کوہر بات میں کیڑے نکالنے کی پرانی عادت ہے ۔عدلیہ سے نالاں، عسکری قیادت سے ناخوش، انتہائے خود پسندی کی صید یہ خاتون اِس وہم میںمبتلاء کہ ضیائے شعور صرف اُسی کاذہنی اثاثہ ،باقی سب نہلے دہلے۔
اگریہ” مدّبرانِ عالی مقام” کبھی چشمِ خردسے دیکھنے کی زحمت گواراکرلیں تواُنہیںاپنی ہی پیداکردہ افواہوں پر ندامت محسوس ہونے لگے لیکن ضیائے شعور سے تہی، چشمِ بیناسے عاری مگر بزعمِ خویش ارسطوانِ دہراورطائرانِ سدرہ آشنااپنے کہے کو حرفِ آخر اور اپنے لکھے کو صحیفۂ آسمانی ثابت کرنے کے لیے ہمہ وقت برسرِپیکار۔ دوستوںکی محفل میںایک مہربان نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا ”آپ کے ہر کالم میںجنرل راحیل شریف کی تعریف ہی ہوتی ہے”۔عرض کیا کہ سیاست میں فوجی مداخلت ناقابلِ قبول لیکن جنگیں تو ہمیشہ فوج ہی لڑاکرتی ہے اوراِس وقت ہم حالت ِ جنگ میں۔ اندرونی وبیرونی دونوں محاذوں پر حالات مخدوش ،بیرونی دشمن واضح لیکن اندرونی چھپاہوا اِس لیے زیادہ خطرناک۔
پاک فوج ہردو محاذوں پر قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتی ہوئی اور جوشِ اضطراب سے سیماب وار سپہ سالار اگر بمانند شمع ِ جہاں افروز، دیدۂ بیدار کے ساتھ یہ ادراک کرتے ہوئے کہ مجبوروں ،مقہوروں اورحلقۂ دامِ تمنا میں الجھنے والے سیاہ بختوں کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیے تواِس میں بُرا کیا ہے؟ ۔اگرسپہ سالار طلسمِ ظلمتِ شَب کو توڑ کر بہارِ جاوداںکی تلاش میں نکل کھڑاہوا تو کیا اُس کے ہاتھ مضبوط نہیں کرنے چاہییں؟۔ گفتارکے غازی تو ایک ڈھونڈوہزار ملتے ہیں لیکن کردار کا غازی پہلی بار میسرہوا۔ وہ درآمد شدہ نہیں، خالص پاکستانی ہے جس کے گھر کے درودیوار خونِ شہیداں سے لہورنگ۔ جس کاگھر شہیدوں کے پاکیزہ لہو کی خوشبو سے معطرہو ،وہ بھلا”مارشل لائی تعفن” سے اپنے گھرکی فضاء کو مسموم کیوں کرنے لگا۔
جو اپنی مقبولیت کی اوجِ ثریاپہ مقیم ہو،وہ کوئی ایسافعل سرانجام کیوںدینے لگاجو اسے تاریخی پستیوں کی نظرکر دے۔ مکررعرض کیاکہ میںنے ہمیشہ ”شریفین” (میاںنواز شریف ،جنرل راحیل شریف) کا ایک صفحے پر ہونا قوم کے لیے نیک فال سمجھا اور برملا لکھاکہ پاکستان کی تاریخ میںیہ معجزہ پہلی باررونما ہوا کہ سیاسی وعسکری قیادت افہام وتفہیم کی رفعتوںکو چھورہی ہے۔ ایسے میںانتشارکی باتیں وہی کرسکتا ہے جسے ملک سے ہمدردی ہے نہ قوم سے۔ یہی وقت ہے خفتگانِ کنجِ اماں کو جھنجھوڑکر جگانے اورایسے لوگوںکو مُنہ توڑجواب دینے کاجوامتیازِ رفعت وپستی سے محروم محض اپنی سازشی تھیوریوںکے بَل پرزندہ ہیں۔ جب کبھی فضائے بسیط میں اُمید کے دیئے روشن ہونے لگتے ہیںتو انتشارکی آڑھت سجانے والے بھی سرگرم ہوجاتے ہیں۔اب جبکہ ایٹمی دھماکوں کے بعدمعاشی دھماکوںکا موسم قریب آن لگاتوایک دفعہ پھرحکومت کے جانے کے دن گننے والے اپنے بلوںسے باہر نکل آئے۔
کسی نے اکتوبرکی تاریخ دی تو کوئی دسمبر سے پہلے حکومت کے خاتمے کی شرطیںباندھنے لگا۔کہا جارہا ہے کہ جنابِ آصف زرداری نے دبئی میں ہنگامی اجلاس بلایاہی اِس لیے ہے کہ استعفوںکے آپشن پرغورکیا جاسکے۔ ایم کیوایم پہلے ہی اسمبلیوںسے استعفے دے چکی اگر پیپلزپارٹی نے بھی اسمبلیوںسے باہرآنے کا فیصلہ کرلیا توتحریکِ انصاف بھی یقیناََ اُن کاساتھ دے گی اور ایسا کرتے وقت اُسے ہرگز پرواہ نہیں ہوگی کہ ماضی میںاُس کے قائداِن دونوںسیاسی جماعتوںکے بارے میں کیا کچھ فرماچکے ہیں کیونکہ یوٹرن لینااُس کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ایسا ہونے کی صورت میں الیکشن ناگزیرہو جائیںگے۔ ایسی سازشی تھیوریوںکو جنم دینے والے یہ بھول جاتے ہیںکہ جب ایک عامی تک بھی یہ افواہیں پہنچ رہی ہیں تو کیا وزیرِاعظم صاحب اوراسٹیبلشمنٹ اِس سے آگاہ نہیں ہو گی؟۔
دراصل ایسی افواہوں کے خالق اپنے تجزیوں کے تانے بانے ہی اِس بنیاد پر بنتے ہیں کہ اِس وقت سول ملٹری ریلیشن شپ انتہائی نازک موڑپر ہے اور باہمی غلط فہمیوں میں روز بروز اضافہ ہوتاچلا جارہاہے حالانکہ ایساکچھ بھی نہیںاورحقیقت یہی کہ سول ملٹری تعلقات مثالی ہیں، اتنے مثالی کہ شاید پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوئے ہونگے۔ پاک چائنا اقتصادی راہداری کی تکمیل وزیرِاعظم کاخواب اورجنرل راحیل شریف کابھی، دہشت گردی کے خلاف دونوں یکسواور کراچی آپریشن پرکوئی سمجھوتہ کرنے کوہرگز تیارنہیں۔
دونوں رہنماء ہفتے میںایک دوبار لازماََ سرجوڑ کر بیٹھتے اورملکی حالات پرسیر حاصل گفتگو کرتے ہیں۔ جنرل صاحب متعدد بار جمہوریت کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کااعلان کرچکے ، وزیرِداخلہ بھی باربار سول ملٹری مثالی تعلقات کااعادہ کرچکے اوردیگر وفاقی وزراء توہر روزاِن مثالی تعلقات کے گُن گاتے نظرآتے ہیںلیکن سازشی تھیوریوںپر قلم گھسیٹنے والے ماننے کوہر گز تیار نہیں۔ سمجھ سے بالاتر کہ سول ملٹری تعلقات میں خرابی کی افواہوںکو ہوادینے والے ہمارے عقیل وفہیم تجزیہ نگاروںکو اِس گناہِ بے لذت سے کیافائدہ ہوگا ۔
تحریر: پروفیسر رفعت مظہر