لاہور(ویب ڈیسک) بیان کیا جاتا ہے، شہر تبریز میں ایک شب زندہ دار عابد و زاہد رہتا تھا۔ لوگ جب میٹھی نیند کے مزے لیتے، وہ خدا کی یاد میں محو ہوتا۔ ایک رات کا ذکر ہے وہ عبادت میں مصروف تھا کہ ایک چور پڑوس کے مکان میں آ گھسا۔ مردِ خدا نے آہٹ سنی تو سمجھ گیا چور ہے اور شور مچا دیا۔ شور سن کر پڑوسی بیدار ہو گئے۔ اب چور کا وہاں ٹھہرنا مشکل تھا۔ وہ جان بچا کر بھاگا۔ چور کے بھاگنے کے بعد عابد کے دل میں خیال آیا کہ میں نے اپنے پڑوسی کے ساتھ ضرور نیکی کی لیکن چور کو روزی سے محروم کر دیا۔ یہ سوچ کر وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور چور کی منزل کا اندازہ کر کے بہت تیزی سے بھاگا اور ایک مختصر راستے سے ہوتا ہوا اس کے سامنے پہنچ گیا۔ چور اسے دیکھ کر ڈر گیا اور کاوا دے کر بھاگنے کی کوشش کی۔ عابد بولا، بھائی! تو مجھ سے کیوں ڈرتا ہے؟ میں تو ایک عرصے سے تجھ جیسے بہادر اور شہ زور شخص کی تلاش میں ہوں۔ میرا ساتھی بن جا۔ مل کر چوریاں کیا کریں گے اور دنوں میں امیر ہو جائیں گے۔ چور یہ بات سن کر رک گیا۔ عابد بولا، ایک ٹھکانا تو میں اسی وقت بتاتا ہوں۔ اگر ہم دونوں مل کر جائیں تو کچھ نہ کچھ ضرور ہاتھ لگے گا۔ کہو، میرے ساتھ چلو گے۔ چور فوراً رضامند ہو گیا اور عابد اسے گھما پھرا کر اپنے گھر لے گیا۔ وہاں جا کر اس نے کہا، تم باہر ٹھہر کر نگرانی کرو۔ میں دیوار پھاند کر اندر جاتا ہوں۔ جو مال ہاتھ لگا، باہر پھینک دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ اپنے مکان میں داخل ہو گیا۔ اس کے گھر میں سامان کہاں تھا۔ چور کو مایوسی سے بچانے کے لیے اس نے اپنے کپڑے باہر پھینک دیے اور پھر چور چور کا شور مچا دیا۔ چور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا اور عابد نے اطمینان کا سانس لیا کہ چور کی کچھ نہ کچھ امداد تو ہو گئی۔ اس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مقام کی نشان دہی کی ہے جب وہ منزلِ احسان پر فائز ہوتا ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ان خبیث اور ارزل لوگوں کی حالت پر غور کرنا چاہیے جو اپنی ادنیٰ سی خواہش کی تکمیل کے لیے دوسروں کی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے۔ تاریخ ایسے ان گنت لوگوں کے حالات بیان کرتی ہے جو انسانوں کی کھوپڑیوں کو پیالہ بنا کر ان میں مشروب پیتے رہے ہیں اور انسانی سروں کے مینار تعمیر کراتے رہے ہیں۔ جس طرح یہ لوگ برائی کی آخری حدوں تک پہنچ جاتے ہیں بالکل اسی طرح اللہ کے خاص بندے بھلائیوں میں منزلِ معراج حاصل کرتے ہیں۔ عابد کی اس نیکی کو شاعرانہ مبالغہ یا انسانی فطرت کے خلاف کوئی بات خیال نہیں کرنا چاہیے۔