تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مذاق اڑانے والے کے لئے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا آؤ، آؤ! وہ غم اور تکلیف کی حالت میں آئے گا تو دروازہ بند کر دیا جائے گا پھر دوسرا دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا آؤ، آؤ! وہ غم اور تکلیف کے ساتھ آئے گا، جب وہاں پہنچے گا تو اس پر وہ دروازہ بھی بند کر دیا جائے گا، مسلسل اسی طرح ہوتا رہے گا حتیٰ کہ اس کے لئے دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا آؤ، آؤ پس وہ مایوسی کی وجہ سے نہیں آئے گا۔”
قرآنِ پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں؛
یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الّٰلہَ وَ کُونُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ (سورة توبہ: 119) ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں میں سے ہو جائو۔
اپریل فول کا جھوٹ اور مذاق بے شمار لوگوں کی زندگیوں میں طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوا ہے۔ اپریل فول کا شکار ہونے والے کئی افراد صدمے میں مبتلا ہو کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، کئی خوش و خرم جوڑے ایک دوسرے سے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں، کتنے گھروں میں طلاقیں ہو جاتی ہیں اور مذاق کرنے والے ان سارے ناقابلِ تلافی صدمات اور نقصانات کا کسی طور پر بھی کفارہ ادا نہیں کر سکتے۔ یہ ایک غیر شرعی اور غیر اسلامی رسم ہے۔ ”مغرب کی بنا سوچے سمجھے تقلید ”کے شوق نے ہمارے معاشرے میں جن برائیوں کو رواج دیا انہی میں سے یہ ایک رسم ہے۔ اس رسم کے تحت یکم اپریل کو جھوٹ بول کر کسی کو دھوکہ دینا ،دھوکہ دے کر کسی کو بے وقوف بنانا نہ صرف جائز سمجھا جاتاہے، بلکہ اسے ایک کمال قرار دیا جاتا ہے، جو شخص جتنی چابکدستی سے دوسرے کو جتنا بڑا دھوکہ دیتا ہے اسے اتنا ہی قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے۔ اپریل فول ، جس کی بنیاد جھوٹ، دھوکہ دہی اور بلاوجہ کسی بے گناہ کو بیوقوف بنانے پر ہے، اخلاقی اعتبار سے بھی غلط ہے اور اس کا تاریخی پہلو بھی ان لوگوں کے لئے انتہائی شرمناک ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے تقدس پر کسی بھی اعتبار سے ایمان رکھتے ہیں۔ اِس رسم کی اِبتداء کیسے ہوئی؟ اس بارے میں مورخین کے بیانات مختلف ہیں۔ بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سترہویں صدی سے پہلے سال کا آغاز جنوری کی بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا، اس مہینے کو رومی لوگ اپنی دیوی وینس (VENUS)سے منسوب کر کے مقدس سمجھا کرتے تھے، وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphrodite کیا جاتا تھا اور شاید اسی یونانی نام سے مشتق کر کے مہینے کا نام اپریل رکھ دیا گیا۔ (برتانیکا، پندرہواں ایڈیشن) ۔ بعض مصنفین کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ یکم اپریل سال کی پہلی تاریخ ہوا کرتی تھی اور اس کے ساتھ ایک بہت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا۔
اس لئے اس دن کو لوگ جشن مسرت منایا کرتے تھے اور اسی جشن مسرت کا ایک حصہ ہنسی مذاق بھی تھا جو رفتہ رفتہ ترقی کر کے اپریل فول کی شکل اختیار کر گیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جشن مسرت کے دن لوگ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرتے تھے ایک مرتبہ کسی نے تحفے کے نام پر کوئی مذاق کیا جو بالآخر دوسرے لوگوں میں بھی رواج پکڑ گیا۔ برتانیکا میں اس رسم کی ایک اور وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ مارچ سے موسم میں تبدیلیاں آتی شروع ہوتی ہیں، ان تبدیلیوں کو بعض لوگوں نے اس طرح تعبیر کیا کہ (معاذاللہ) قدرت ہمارے ساتھ مذاق کر کے ہمیں بیوقوف بنا رہی ہے، لہذا لوگوں نے بھی اس زمانے میں ایک دوسرے کو بیوقوف بنانا شروع کر دیا(برتانیکا)۔ یہ بات اب بھی مبہم ہی ہے کہ قدرت کے اس نام نہاد ”مذاق” کے نتیجے میں یہ رسم چلانے سے ”قدرت” کی پیروی مقصود تھی یا اس سے انتقام لینا؟ ایک تیسری وجہ انیسویں صدی کے معروف انسائیکلوپیڈیا ”فاروس” نے بیان کی ہے اور اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ وہ وجہ یہ ہے کہ دراصل یہودیوں اور عیسائیوں کی بیان کردہ روایات کے مطابق یکم اپریل وہ تاریخ ہے جس میں رومیوں اور یہودیوں کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تمسخر اور استہزاء کا نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ نام نہاد انجیلوں میں اس واقعے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ”لوقا کی انجیل ”کے الفاظ یہ ہیں ”اور جو آدمی اسے (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو) گرفتار کئے ہوئے تھے۔
اس کو ٹھٹھے میں اُڑاتے اور مارتے تھے اور اس کی آنکھیں بند کر کے یہ کہہ کر پوچھتے تھے کہ نبوت (یعنی الہام) سے بتا کہ کس نے تجھ کو مارا اور طعنے مار مار بہت سی اور باتیں اس کے خلاف کہیں”۔ انجیلوں میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے حضرت مسیح علیہ السلام کو یہودی سرداروں اور فقیہوں کی عدالت عالیہ میں پیش کیا گیا، پھر انہیں پیلاطس کی عدالت میں لے گئے کہ ان کا فیصلہ وہاں ہو گا، پھر پیلاطس نے انہیں ہیروڈیس کی عدالت میں بھیج دیا اور بالآخر ہیروڈیس نے دوبارہ فیصلے لے لئے ان کو پیلاطس ہی کی عدالت میں بھیجا۔ لاروس کا کہنا تھا کہ حضرت عیسیٰ کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں بھیجنے کا مقصد بھی ان کے ساتھ مذاق کرنا اور انہیں تکلیف پہنچانا تھا اور چونکہ یہ واقعہ یکم اپریل کو پیش آیا تھا اس لئے اپریل فول کی رسم در حقیقت اسی شرمناک واقعے کی یاد گارہے۔ اگر یہ بات درست ہے (لاروس وغیرہ نے اسے بڑے وثوق کے ساتھ درست قرار دیا ہے اور اس کے شواہد پیش کئے ہیں) تو غالب گمان یہی ہے کہ یہ رسم یہودیوں نے جاری کی ہو گی اور اس کا منشا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تضحیک ہو گی۔ لیکن یہ بات حیرت ناک ہے کہ جو رسم یہودیوں نے(معاذاللہ) حضرت عیسیٰعلیہ السلام کی ہنسی اڑانے کے لئے جاری کی، اسے عیسائیوں نے کس طرح نہ صرف قبول کر لیا بلکہ خود بھی اسے منانے اور رواج دینے میں شریک ہو گئے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ عیسائی صاحبان اس رسم کی اصلیت سے واقف نہ ہوں اور انہوں نے بے سوچے سمجھے اس پر عمل شروع کر دیا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عیسائیوں کا مزاج و مذاق اس معاملے میں عجیب و غریب ہے، جس صلیب پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے خیال میں سولی دی گئی بظاہر قاعدے سے ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ ان کی نگاہ میں قابلِ نفرت ہوتی کہ اس کے ذریعے حضرت مسیح علیہ السلام کو ایسی اذیت دی گئی ، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ عیسائی حضرات نے اسے مقدس قرار دینا شروع کر دیا اور آج وہ عیسائی مذہب کے تقدس کی سب سے بڑی علامت سمجھی جاتی ہے۔
پس واضح ہوا کہ خواہ اپریل فول کی رسم وینس نامی دیوی کی طرف منسوب ہو یا اسے (معاذاللہ ) قدرت کے مذاق کا رد عمل کہا جائے یا حضرت عیسی علیہ السلام کے مذاق اڑانے کی یادگار، ہر صورت میں اس رسم کا رشتہ کسی نہ کسی توہم پرستی یا کسی گستاخانہ نظریے یا واقعے سے جڑا ہوا ہے اور ایک ایسے واقعے کی یادگار منانا، جس کی اصل یا تو بت پرستی ہے، یا توہم پرستی ہے، یا پھر ایک پیغمبر کے ساتھ گستاخانہ مذاق، اب مسلمانوں کو خود یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ آیا یہ رسم اس لائق ہے کہ اسے مسلمان معاشروں میں اپنا کر اسے فروغ دیا جائے؟ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے یہ رسم ”جھوٹ بولنا”، ”دھوکہ دینا” اور ”دوسروں کو اذیت پہنچانا” جیسے بدترین گناہوں کا مجموعہ ہے۔ نبی پاک ۖنے ارشاد فرمایا ہے کہ ”تم ہمیشہ سچ بولا کرو کیونکہ سچ نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ ایک شخص ہمیشہ سچ بولتا ہے اور سچ کی تلاش میں رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ ‘انتہائی سچا شخص ہے’ اور تم جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم تک پہنچا دیتا ہے۔
ایک شخص ہمیشہ جھوٹ بولتا اور جھوٹ کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں لکھ دیا جاتا ہے کہ ‘یہ بہت جھوٹ بولنے والا شخص ہے’۔ (مسلم)ایک اور حدیثِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ ”یہ بہت بڑا دھوکہ ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کہو، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو اور تم اور تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو”(مسند احمد و طبرانی )۔مسلمانوں کے لئے اپریل فول یا اس سے مشابہت رکھنے والے کسی بھی غیر اسلامی اور غیر شرعی تہوار اور مشرکانہ رسومات کا منانا ناجائز اور حرام ہے اور یہود و نصاریٰ کی مشابہت اختیار کرنے کے مترادف ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور اسلامی شعائر کی پاسداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہود و نصاریٰ کی اندھی تقلید سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین!
تحریر: ڈاکٹر ایم اے قیصر
فاروق آباد ضلع شیخوپورہ، پنجاب، پاکستان
Mob: +92 300 469 5424
Email: aliqaisar_dr2007@hotmail.com