تحریر: رضوان اللہ پشاوری
صحافت ایک مقدس اور عظیم الشان پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و ملت کی خدمت کا بہترین ذریعہ بھی ہے،یہ ہمارے لیے ابلاغیات کا ایک اہم راستہ ہے جس کے ذریعے ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو دینِ اسلام کی طرف راغب کرتے ہیں کیونکہ صحافتِ اسلامی کا نقطئہ نظر اور محورِ عمل امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر مبنی ہے،صحافت کے محورِعمل امر بالمعروف و نہی عن المنکرہونے کامطلب بھی یہی ہے کہ اپنے لکھائی کے ذریعے لوگوں کو راہِ راست کی طرف لایا جائے۔
اب اگر کوئی یہ کہے کہ ہر صحافی کا نقطئہ نظر امر بالمعروف و نہی عن المنکرنہیں ہوتا اور نہ ہی ہر کالم یا ہر اخبار کا مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکرہوتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صحیح اور سچی خبر پھیلانا اور نشر کرنا بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکرہے مثلاًاگر یہ کہا جائے کہ” بھارت نے نیوٹران بم بنانے کی صلاحیت حاصل کرلی”تو اس میں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکراس طور پر ہے کہ مملکتِ خداد کے سائنسدانوں اور دانشور حضرات کو متنبہ کرنا ہے کہ انہوں نے تو یہ صلاحیت حاصل کر لی اب تم اس سے خلاصی اور جان چھوڑانے یا ان کے اس صلاحیت کو ناکارہ بنانے کے لیے بھی کوئی پیش رفت کرلو۔
یہاں تک تو صحافت کے متعلق لکھا گیا،اب صحافی کے لیے بھی چند گزارشات عرض کردیتا ہوںکہ صحافی کی افادیت کے لیے اس میں چند خوبیاں ہونی چاہئے۔اول یہ کہ صحافی کو ناسازگار حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ یہ تو بمنزلہ ایک داعی کے ہے اور داعی کو ہر حالت میںثابت قدم رہنا چاہئے۔دوسری یہ کہ صحافی جو بات لکھے تو آپ کی یہ لکھائی سچ ہونے کے ساتھ ساتھ حقیقت پر بھی مبنی ہو نہ کہ اس میں اپنی طرف سے کچھ رنگا رنگی داخل کرے۔تیسری یہ کہ صحافی جو بھی لکھے تو اس لکھائی کے وقت نیت کی درستگی کرے کہ جب نیت درست ہوگی کوئی دنیاوی طمع اور لالچ نہیں ہوگا تو آپ کی یہ لکھائی خیر خواہی پر مبنی ہوگی۔چوتھی یہ کہ وہ اختیار کیا گیا طریقہ بھی حق ہو ،طریقہ حق ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سنّت انبیاء کے مطابق ہوکیونکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکرکے فریضے کی ادائیگی میں انبیاء کرام نے حکمت واعتدال کے بہترین نمونے چھوڑے ہیں۔
ان تمام گزارشات کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ جوبھی لکھے یا کہے تو وہ دلخراش انداز میں نہ کی جائے بلکہ شائستگی اور نرمی سے کی جائے،دلخراش اور سخت کلامی ہوگی تو بات بااثر ثابت نہ ہوگی بلکہ بعض اوقات اس کا مضر اثر بھی ظاہر ہوتا ہے مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو ان سے فرمایاگیا تھا کہ آپ ان سے نرم بات کیجئے۔مفتی محمدشفیع لکھتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام جیسے جلیل القدر انبیاء کو فرعون جیسے گمراہ انسان کے سامنے سخت کلامی کی اجازت نہیں دی گئی تو نہ ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام سے بڑت مصلح ہیں اور نہ ہمارے مخاطبین فرعون سے زیادہ گمراہ ہیں، تو ہمیں اپنے مخاطبین کے سامنے سخت کلامی کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟۔
قارئین کرام اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ ”وقولوا للناس حسنا”(عام لوگوں کو نرمی سے بات کہو)اس آیت کریمہ پر ایک واقعہ یاد آیا کہ پاکستان کے قیام کے بعدجب ریڈیو پاکستان کراچی موجودہ عمارت کی نئی تعمیر ہوئی تو اس وقت کے ریڈیو پاکستان کراچی کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری نے آکر مفتی محمد شفیع سے درخواست کی کہ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام کے لیے کوئی قرآنی آیت تجویز فرمائے تو مفتی محمد شفیع نے قرآن کریم کی یہ آیت”وقولوا للناس حسنا”تجویز فرمایا تھا،چنانچہ اسی وقت سے قرآن کریم کا یہ جملہ ریڈیو پاکستان کے مونوگرام کے طور پر چلا آرہا ہے۔
اگر ہمارے مسلمان صحافی بھائی ان مذکورہ ہدایات کو اپنا لے اور وہ اپنا صحیح مقام پہچان لے کہ ان کا درجہ حقیقت میں داعئی حق کا درجہ ہے،تو وہ اپنے بہترین کردار کے ذریعے دنیا کو یہ بتائیں گے کہ ایک مسلم صحافی کا کیا مقام ہوتا ہے اور اسلامی صحافت اور موجودہ صحافت میں کتنا بڑا فرق ہے۔اللہ تعالیٰ ہمارے اربابِ بست وکشاد کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
تحریر: رضوان اللہ پشاوری