تحریر: ایم سرور صدیقی
برداشت ،تحمل ، مروت ،بردباری اور درگذر کرنا شاید پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو زیادہ تر لوگوںمیں قوت ِ برداشت کم ہوتی جارہی ہے جس کے باعث بات بے بات پر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں معمولی” تو تو میں میں”پر اسلحہ نکل آتاہے پھر سیاستدان متاثر ہوئے بغیر کیسے رہ سکتے ہیں اسی لئے اخبارات ان کی ” تو تو میں میں’ سے بھرے رہتے ہیں اور عوام بھی سمجھتے ہیں
ہوتاہے شب وروز تماشا میرے آگے آپ نے اکثر دیکھا ہو گا رمضان شریف یا عیدین کے قریب فقیروںکے غول کے غول گروہ درگروہ شہروںمیں واردہوتے ہیں۔۔ ان کا حلیہ ، دل سوز صدائیں اور مکالمے اتنے زوداثرہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان پر خواہ مخواہ ترس آنے لگتا ہے کئی بھکاری اتنے ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ بھیک لئے بغیر جان چھوڑنے کو تیارہی نہیں ہوتے ۔۔۔ مذہبی نقطہ نظر سے بھی بھیک مانگنا انتہائی مکروہ کام ہے نبی ٔ اکرم ۖ کا فرمان ہے قیامت کے روز بھکاری کے چہرا سیاہ ہو گا۔۔۔
اگر غور کریں تو محسوس ہوگا کہ حقیقتاً زیادہ تر بھیک مانگنے والے قابل ِ رحم نہیں یہ معاشرے کے ناسور ہیں جنہوں نے محنت مزدوری کرنے کی بجائے اسے پیشہ بنا لیا ہے آج ہمارے معاشرے میں لوگ پیسے کمانے کے چکر میں اپنے گھر اور گھر والوںسے لاپرواہ ہوگئے ہیں بے ہنگم آزادی، موبائل فون، انٹرنیٹ اور کیبل سسٹم میں سارا دن گھرگھر ٹی وی پر چلنے والی لچر فلموں نے خواتین و مردکو انتہائی آزادخیال بنا دیا ہے۔ زیادہ تر نوجوان نسل نے بے حیائی کو محبت سمجھ لیا ہے اب تو گھر والوںکو علم بھی نہیں ہوتا لڑکیاں اپنے بوائے فرینڈ بنا لیتی ہیں اور”تعلقات” بھی استوار کرلیتی ہیں اہل ِخانہ کو اس وقت ہوش آتی ہے
جب لڑکیاں حاملہ ہوجاتی ہیں اور لڑکے رفو چکر۔۔خدارا سب ہوش کے ناخن لیں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جا تاہے جس نے معاشرے میں توازن قائم کررکھاہے یہ توازن نہ ہوتو جنگل کا قانون بھی شرما جائے،یہ میڈیا کا خوف ہے کہ حکمران طبقہ ، بااختیار لوگ، بڑے سے بڑا افسر،اداروں کے کرتا دھرتا، متکبر افرادیاپھرظالم اپنی من مانی کرنے سے گریزکرتے ہیں ورنہ ظلم کی حاکمیت میں کوئی پوچھنے والا بھی نہ ہو ۔صحافت کا شعبہ عوام کی داد رسی،انصاف کی فراہمی،مسائل اجاگر کرنے اورلوگوںکو باخبر رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔
وہ لوگ کتنے قابل ِ تحسین ہیں جوعام آدمی کو ظلم سے بچانے کیلئے ظالموں سے ٹکرا جاتے ہیں پاکستان میں درجنوں صحافی اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے دوران اپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرچکے ہیں یقینا ان شہداء پر انسانوں کو ناز ہے اور انسانیت ان پر فخر کرتی ہے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود لوگوںکوآگہی سے روشناس کروانا،قلم سے جہاد شایددنیا کا سب سے مشکل کام ہے سچ تو یہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت عام آدمی کو کبھی بھی ریلیف نہیں ملا۔محرومیاں ہی محرومیاں غربیوں کا مقدر بنی ہوئی ہیں۔
سرکاری نوکریاں اور کاروبار کے وسائل پر عام آدمی کا کوئی استحقاق نہیں ، پڑھے لکھے نوجوان بیروزگارپھرتے ہیں اور نااہل لوگ آگے بتائیں جناب یہ کون سی جمہوریت ہے ؟ کیسے جمہوری تقاضے؟دل نہیں مانتا ،ذہن تسلیم نہیں کرتا حقیقت یہی ہے اس جمہوریت میں عام آدمی کیلئے کچھ بھی نہیں۔۔ لگتاہے بیشتر موجودہ قومی رہنمائوں میں سے کوئی بھی دل سے موجودہ سسٹم کو تبدیل کرنا نہیں چاہتا سب کی خواہش ہے یہ موج میلہ ایسے ہی ہوتا رہے جب تک جمہوریت کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچیں گے ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ ؟۔۔ پھر ملک میں جمہوریت ہو یا آمریت ۔۔عام آدمی کو کیا فرق پڑتاہے۔
اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش نہیں جب تک موجود ہ استحصالی نظام موجود ہے بہتری کی کوئی امید نہیں دور ِحاضر میںپاکستان کو جن چیلنجزکا سامناہے حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں عوام جن مسائل سے دوچارہیں اس کا تقاضاہے کہ پاکستان جمہوریت کی بدولت وجودمیں آیا اور جمہوریت ہی سے ترقی ممکن ہے ملک میں جو بھی تبدیلی آئے وہ جمہوری اور امن طریقہ سے آنی چاہیے محاذآرائی،جلائو گھیرائو سے حالات خراب ہو سکتے ہیں جس کا ملک ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا اس سے خانہ جنگی جیسی کیفیت پیداہونے کااحتمال ہے
سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اس وقت ملک میں اشرافیہ کا پاور سٹریکچر اتنا سٹرونگ ہے کہ اس نے آکٹوپس کی طرح ہرچیزکو جکڑرکھاہے انہیں ڈرہے کہ کسی قسم کی کوئی تبدیلی آئی تو ان کی سیاست، اقتدار اور مراعات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے اس لئے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ1 973 ء کے متفقہ دستورمیں فوجی ڈکٹیٹروں اورجمہوری حکمرانوںنے 21 ترامیم کرکے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا یہ بات طے ہے
آخری 5 آئینی ترامیم عوامی مفادمیں ہرگزنہیں کی گئیں بلکہ اس کا مقصد شاہانہ اختیارات حاصل کرنا اور ا نتخابی عمل پر اثراندازہونا تھا تاکہ حسب ِ منشاء حکومتوںکی تشکیل کی جا سکے سوچنے کی بات ہے تیسری باروزیر ِ اعظم بننا،حکومت اور اپوزیشن کی مشاورت سے نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر، الیکشن کمیشن کی تشکیل، چیف جسٹس، آرمی چیف،نگران حکومتوں کا قیام یاچیئرمین نیب کی تقرری سے عام آدمی کیا مفادوابستہ ہے ان کو اس سارے معاملات سے کیا سروکار؟ یہ اشرافیہ کے اپنے مفادات ہیںحقیقت ہمیشہ تلخ ہوتی ہے حکمرانوںنے 1973ء کے متفقہ دستورمیںتمام ترامیم اپنے مخصوص سیاسی مفادات کیلئے کیں یہ گیم اب تلک جاری ہے کسی کا مطمع ٔ نظرعوامی بھلائی نہیں اس کے نتیجہ میں حکمرانوںنے دولت کے انبار اکٹھے کرلئے اور عوام روٹی کے لقمے لقمے کو ترس رہے ہیں یہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
تحریر: ایم سرور صدیقی