تحریر : عقیل خان
صحافت کسی بھی معاملے پرتحقیق اور پھر اسے پرنٹ یا الیکٹرونکس میڈیا کی شکل میں قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ صحافت پیشے سے منسلک لوگوں کو صحافی کہتے ہیں۔ صحافت زندگی کا چوتھا ستون ہے۔ صحافت کو مقدس پیشہ بھی کہا جاتا ہے ۔صحافت ایک آواز ہے جو ایک شہر سے دوسرے شہرتک، ایک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچائی جاتی ہے۔ صحافت جس رفتار سے ترقی کررہی ہے اتنی ترقی شاید ہی کوئی کررہا ہو۔ صحافت جو ایک مقدس پیشہ ہے مگر اس مقدس گائے کوبھی چند لوگوں نے ذلیل و رسوا کیا ہوا ہے۔
پاکستان میںصحافت کا خطرناک حد تک استعمال کیا جارہا ہے مگر پاکستانی صحافت میں کرپشن اور غیر ذمہ داری کے اعداد و شمار آج تک سامنے نہیں آئے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد عام لوگوں کا اعتماد صحافت سے مکمل طور پر اْٹھ جائے گا جو جزوی طور پر پہلے ہی اْٹھ چکا ہے۔یہ بات طے ہے کہ لوگوں کی راہنمائی کا حق صرف اْسی کو حاصل ہے کہ جس کا اپنا دامن مکمل صاف ہو۔غلطی ہو سکتی ہے مگر غلطی کو بار بار دہرانا غلطی شمار نہیں کیا جا سکتا ہے۔پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندیاں ضرور رہی ہیں مگر گزشتہ عشرے سے ملنے والی آزادی کو ہمارے میڈیا نے جس طرح “کیش” کرانے کی کوشش کی ہے اس کوا لفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔
آج صحافت میں آنے کے لیے خاص محنت نہیں کرنا پڑتی ۔ چند سو روپوں کی خاطر ایک کارڈ نما ہتھیار تھما دیا جاتا ہے جس کو دوسری زبان میں لائسنس بھی کہا جاسکتا ہے۔آج نظر اٹھا کر دیکھ لیں آپ کوبہت سے دیہاتوں اور شہروں میں ایسے صحافی ملیں گے جوصحافت کی الف ب سے واقف نہیںمگر ان کے پاس کسی نہ کسی روزنامے، ہفت روزہ یا پندرہ روزہ کا کارڈ ہوگا۔ ان خبر لکھنی آئے یا نہ آئے مگر بندے کو بلیک میل کرنے کا فن ضرور آتاہوگا۔ پاکستان میں چھوٹے چھوٹے اتنے اخبارات مارکیٹ میں آگئے ہیں کہ ان کے نام بھی یاد نہیں ۔
ایک بار مجھے ایک ایسے سرراہ ایک ایسے صحافی سے ملنے کا اتفاق ہوا جس کے اپنے قومی شناختی کارڈ پر دستخط کی بجائے انگوٹھا لگا ہوا تھا۔ جب میں نے پوچھا کہ بھائی آپ دستخط کی جگہ انگوٹھا کیوں لگایا بے شک انگوٹھا لگا نابھی ضروری ہے مگر آپ؟ اس نے جواب دیا بھائی نام نہیں لکھنا آتا اس لیے ادھر بھی انگوٹھا لگا دیا جبکہ اس کے پاس میں نے ایک پریس کارڈ بھی دیکھا تو پھر پوچھا کہ بھائی یہ کارڈ کس کا ہے ؟ جواب ملا بھائی میرا ہے اور بڑے فخر سے جواب دیا کہ میں اس (لوکل) نیوزپیپر کا نمائندہ ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ پریس کارڈ بنانے والے ہی دیکھ لیتے کہ اس بندے کا صحافی بننے کا معیار ہے بھی کہ نہیں؟
درحقیقت بہت سے لوگ صحافت میں اس لیے نہیں آتے کہ انہوں نے پاک صاف صحافت کرنی ہے بلکہ وہ اس لیے آتے ہیں کہ اپنے دونمبر کام کو صحافت کے لبادے میں ڈھانپ سکیں۔ ایسے نام نہاد صحافی حقیقی صحافیوں کو بھی بدنام کررہے ہیں۔ کچھ لوگ صحافت میں اس لیے بھی آتے ہیں کہ ان علاقے میں پروٹوکول ملے۔ ہر محکمے میں سلام دعا رہے تاکہ کام کرانے میں آسانی رہے۔بہت سے صحافیوں نے آزاد صحافت اور مقدس صحافت کے لیے اپنی جانیں قربان کردیںاور بہت سے آج بھی کرپٹ لوگوں کے درمیان سیسہ پلائی بن کر کھڑے ہیں۔
پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل اینکر اقرار الحسن کو سندھ اسمبلی میں پستول لانے کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔چینل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اقرار نے اسمبلی کی سیکورٹی انتظامات کا پول کھولا ہے، جبکہ سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے اسلحہ لیکر اسمبلی میںآنے کے الزام میں اقرار الحسن کو گرفتار کر لیا ہے۔یہ معاملہ اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جبکہ اجلاس کے دوران مہمانوں کی گیلری میں موجود اقرار الحسن نے از خود کھڑے ہو کر اسپیکر آغا سراج درانی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ ان کے قریب جو شخص بیٹھا ہے اس کے پاس اسلحہ ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے برابر بیٹھے شخص کی شلوار سے ایک پستول باہر نکالا جسے عملے کی مدد سے اسپیکر کی نشست تک پہنچایا گیا۔ پستول خالی تھا، اس کی تصدیق آغاز سراج درانی نے میگزین چیک کرنے کے بعد کی۔
اس کے بعد اس موضوع پر نئی بحث چھڑ گئی۔ ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق تبصرہ کرنے لگا۔ ممکن ہے کہ سیکورٹی ناقص ہومگر یہ بھی حقیت ہے کہ وی آئی پی کلچر آڑے آنے کی وجہ سے نامور صحافیوں کوچیک ہی نہ کیاجاتا۔ ہمارے وی آئی پی کلچر میں کسی سے چیک کرنا تو دور کی بات اس سے پوچھنا بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔ اقرارالحسن نے جو کیا اس کی سوچ اپنی جگہ مثبت تھی مگر اس اقدام سے نام نہاد صحافی فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ۔ کوئی بھی دو نمبر کام کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ٹھیک اور اگر پکڑے گئے تو ”چیک کرنے” کا نام دیکر بچ نکلیں گے۔ قانون تو سب کے لیے ایک ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں امیروں اور غریبوں میں فرق ڈالا ہوا ہے۔
صحافت معاشرے کا اہم ستون ہے اور ہمارے صحافت سے وابستہ لوگوں کو اپنے لیے نہیں بلکہ اپنی عوام کے لیے شفاف آئینہ دکھانا چاہیے۔ ہمیں اپنی ذات کو سر فہرست نہیں رکھنا بلکہ ملکی سالمیت اور ملک کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگاورنہ ایک دن یہ چوتھا ستون اور مقدس پیشہ ملک لوٹنے ، توڑنے اور برباد کرنے والوں کا غلام بن کر رہ جائے گا۔ابھی کل ہی آزاد صحافت کا عالمی دن منایا گیا ہے اور ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم صحافت کے ذریعے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کریں گے۔ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے سے کبھی گریز نہیں کریں گے۔
تحریر : عقیل خان
aqeelkhancolumnist@gmail.com