تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری
عتیق مظفر پوری بھی داغ مفارقت دے گئے۔ چند روز قبل وہ ڈینگو کے بخار میں مبتلا ہوئے، علاج کے لئے انھیں ان کے آبائی گاؤں مہیش استھل (مظفرپور) سے پٹنہ لایا گیا ، لیکن وہ جانبر نہیں ہو سکے اور 18 اگست کی شام میں، پٹنہ کے پارس اسپتال اپنی زندگی کی آخری سانس لی ۔ دوسرے دن بدھ کی شام بعد نماز مغرب انھیں ان کے آبائی گاؤں میں ہی پرنم آنکھوں کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
عتیق مظفرپوری کا اصل نام محمد عتیق تھا ، ان پیدائش مظفرپور ضلع کے مہیش استھل گاؤں میں 1 دسمبر 1952ء کو ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام عبدالرحمٰن تھا ۔ ان کے قلمی سفر کا آغاز 1978 میں نیو سلوربک ایجنسی ،محمد علی بلڈنگ، بھنڈی بازار، بمبئی سے ہوا۔ اس ادارے کے لئے انھوں نے کئی چھوٹی چھوٹی کتابیں تصنیف وتالیف کیں، اس میں مختلف عنوان کے تحت مختلف شعرا کے اشعار کا انتخاب ‘ سب رنگ شاعری’ بھی شامل ہے جو 1978 میںان کے نام سے شائع ہوا ۔یہ اس زمانے میں اپنی طرز کا انوکھا کلکشن تھا۔ اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں اور لاکھوں کا پیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ 1980 میں محمد رفیع مرحوم کو خراج عقیدت کے طورپر ‘محمد رفیع کی فلمی غزلیں’ نام سے بھی ایک کتاب ان کی شائع ہوئی۔ 1978 ہی میںان کاپہلامقالہ ‘سگریٹ نوشی ایک لعنت’ اردو ٹائمز بمبئی سے شائع ہوا۔ اس کے بعد سے ان کا قلمی سفر مسلسل جاری رہا۔
1980میں عتیق مظفر پوری بمبئی سے پٹنہ آگئے۔ بمبئی سے پٹنہ منتقلی پر ان کی بزرگ دوست عصمت چغتائی آپانے انھیں لکھے اپنے ایک خط میں ایک قابل ذکرتبصرہ کیا تھا ۔انہوں نے لکھا تھا ” عتیق اچھا کیا جو تم نے بمبئی چھوڑدی ،یہ چوراچکوں کا شہر ہے یا پھرہم جیسے لوگ جواس کے عادی ہو چکے ہیں۔ کیفی (اعظمی)بھی بمبئی کوچھوڑکر اعظم گڑھ چلے گئے۔” بہر کیف 1980 میں پٹنہ آکرہفت روزہ’اسپلنٹر’کے ادارتی شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔ یہ ہفت روزہ ایک ساتھ انگریزی، ہندی اور اردو میں شائع ہوتاتھا۔
ایس پی سانیال صاحب اس کے مالک تھے ۔ایسٹ بورنگ کینال روڈ پراس کا دفتر تھا۔ گائے گھاٹ پٹنہ کے رہنے والے آنجہانی مانک لال دھاراتینوںایڈیشن کے پرنٹرپبلشر تھے۔ہندی کی ادارتی ذمہ داری ا ن کے دوست آنجہانی شرما نجوکشور نے سنبھال رکھی تھی۔ اردو کے ایڈیٹرہارون خاں ثانی صاحب تھے۔انھیں بھی ہفت روزہ ”اسپلنٹر”کے ساتھ ساتھ پٹنہ سے شائع ہونے والے مختلف روزناموں میں کام کرنا پڑا۔ پٹنہ میں قیام کے دوران انھوں نے متعدد افسانے بھی لکھے،جس میں سے بیشترآل انڈیاریڈیو پٹنہ سے نشر اور آل انڈیاریڈیو کی اردو سروس کے ترجمان پندرہ روزہ ‘آواز’دہلی میں شائع ہوئے تھے۔
1986 میںپٹنہ سے عتیق مظفر پوری نے ماہنامہ’افسانوی دنیا’ کااجرأ کیا جو ایک برس تک جاری رہنے کے بعد 1987 میںان کی علالت کی نذرہوکربندہوگیا۔ پٹنہ کا پانی عتیق مظفرپوری کے مزاج کے موافق نہیںتھا، اس لئے وہ بار بار یہاں بیمار ہو جا رہے تھے ۔ ۔طویل علالت کے بعد انھیں دہلی منتقل ہوناپڑا۔صحت یابی کے بعد دہلی کی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ ‘قاری ‘اور ہفت روزہ ‘نیشنل ایکتا’وغیرہ سے ہوا۔یہاںکی صورتحال بھی پٹنہ سے مختلف نہیں تھی۔
کاتبوں کی طرح ہی بیشتر صحافیوں کو گزر بسر کرنے کے لئے ایک سے زیادہ اخبارات و رسائل میں کام کرنا پڑتا تھا۔ اردو کے ایسے ادارے کم تھے جوباصلاحیت اورصحت مندعملے کا بوجھ برداشت کرسکیں۔ 1990 میںجناب م۔افضل کے راجیہ سبھاکارکن بننے کے بعد انہوںنے انھیں ہفت روزہ’اخبارنو’کے ادارتی شعبہ میںشامل کرلیا۔تقریباًچاربرس تک اس ہفت روزہ اخبار سے وابستگی رہی۔اسکے بعد 1994 میں دہلی سے ہی ہفت روزہ’تیسراراستہ’کااجراء کیا ،جو کئی برس تک جاری رہا۔اس ہفت روزہ نے کافی شہرت و مقبولیت حاصل کی۔یہ الیکٹرونک میڈیاکے عروج اور ہفت روزہ اخبارات کے زوال کادور تھا۔عتیق مظفر پوری نے 2000 ئمیں’ تیسرا راستہ’کی اشاعت روک کر پندرہ روزہ’سائبان’ کااجرا کیا جسے ،ان کے بڑے بیٹے جاویدرحمانی نے اسے روزنامہ میں تبدیل کرکے مزید چار چاند لگا دیا ہے۔
2006 میںروزنامہ’راشٹریہ سہارا’سے بطور سب ایڈیٹر وابستگی کے بعد اور سہارا کی شرائط کے مطابق انھیں’ سائبان’کی ذمہ داری جاوید رحمانی کو سونپنی پڑی تھی۔ 2006 سے ابھی ھال تک’ روزنامہ راشٹریہ سہارا’ نوئیڈا میں بطورسب ایڈیٹر ملازمت کرتے رہے۔ لیکن صحت کی خرابی کے باعث انھیں اس ادارے کو بھی چھوڑنا پڑا، اور بہ حالت مجبوری اپنے آبائی گاؤں میں سکونت اختیار کر لی تھی ۔ عتیق مظفر پوری کی صحافتی زندگی ایسی تھی کہ بہتوںنے ان سے فیض اٹھایا۔ انھوں نے اردوصحافت کواپنی منفرد تحریروں سے نہ صرف انفرادیت بخشی بلکہ اس کی اہمیت اور افادیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ ان کے صحافتی مضامین ، کالم اور تبصروں میں ایک خاص انداز پایا جاتا تھا۔ بے باک، بے خوف اور بے لاگ انداز بیان کے لئے عتیق مظفرپوری کو ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔ اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا ہو ۔ عتیق مظفرپوری بے شک بڑی خوبیوںکے مالک تھے۔
تحریر: ڈاکٹر سید احمد قادری
ئئء Mob: 09934839110