تحریر میاں نصیر احمد
پاکستان جب 14اگست 1947 معرض وجود میں آیا تو اس وقت لب آزاد ہو گئے تھے ہر ایک کو قانونی و معاشرتی اور اخلاقی طور پر یہ حق حاصل ہو گیا تھا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز ا’ٹھا سکے اپنے ساتھ ہونی والی زیادتی و نا انصافی کے خلاف آواز بلند کر سکے نہ صرف اپنے ساتھ ہونی والی نا انصافی و زیاتی کے خلاف آواز بلند کرے بلکہ ان تمام انسانوں کی آواز بنے جوظلم و زیاتی اور نا انصافی کا شکار ہوئے ہیں تو اس وقت میڈیا کا کردار بھی کچھ ایسا ہی ہے جو ظلم و زیادتی اور نا انصافی کا شکار ہونے والے افراد کی آواز بن کر عہد عوان سے انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ان آواز بلند کر والے صحافیوں ،کالم نگاروں ،نمائندوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے پیسوں کے زور یا پھر طاقت کے زور سے اور اگر کوئی پھر بھی نہ ر’کے تو اس کی آواز کو ہمیشہ کے لیے چپ کروا دیا جاتا ہے۔
کیا انصاف کی خاصر آواز بلند کرنا جرم ہے جس کی سزا موت ہے کیوں ان مظلوم و بے سہارا لوگوں کی خاصر آواز بلند کرنے والوں کے سر قلم کر دیے جاتے ہیں ان بے سہارہ و مجبور وںکی صدا کوئی نہیں سنتاان کی صدا بننے والے صحافیوں کو گولی کے دم پر چپ کروا دیا جاتا ہے صحافی معاشرئے میں ریڑ ھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جوعوام کی آواز کو حکام بالا تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے ہیں بدقسمتی کے ساتھ صحافیوں کو دوران کام تشدد کا نشانہ بنانے جمہوری معاشرئے کے لیے انتہائی خطرناک امر ہے جبکہ صحافی فوج کے سپاہی کی مانند میدان جنگ میں سینہ سپر کئے ہوئے اپنے قلم اور کیمرہ کی آنکھ کے ذریعے عوام کو حقائق سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور اگر ہمارئے ملک میں صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش تسلسل کے ساتھ جاری رہی تو پھر ہر کوئی گھروں کے کونوں میں بیٹھ کر ماتم کرتا رہے گا اور ان کی آواز حکام تک پہنچانے والا کوئی نہیں ہوگا، ان کو اس جرم کی سزا دی جاتی ہے۔
جو جرم نہیں نیکی ہے اور جس کا صلہ گولی نہیں فخر ہے دعائیں ہیں اگر ہم اس ملک میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں تبدیلی اپنے اندر لانا ہوگی یہ احساس پیدا کرنا ہو گا کہ دوسروں کی عزت کیسے کی جاتی ہے دوسروں کی جانوں کی قدر کتنی ہے دوسروں کی عزت و جان مال کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے دوسروںکے د’کھ درد میں شریک کیسے ہوتے ہیں کب تک انصاف کی خاظر کھڑے ہونے والے صحافی نا انصافی کی بھیت چڑھتے رہیں گے۔
کب تک غریبوںکے ساتھ ہونی نا انصافیوں کو اجاگر کرنے والے اسی طرح اندھی گولیوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور کب تک ان کے والدین بھی انصاف کی اپیل کرتے خود بھی جان کی بازی ہارتے رہیں گے ایک سچے اور معاشرے کے لیے درد رکھنے والے صحافی کا قصور یہ ہے کہ وہ معاشرے میں ہونے والی زیاتیوں ،نا انصافیوں ،لوٹ مار کو بے نقاب کرتا ہے کیا سچ بولنے اور سچ دکھانے کی سزا موت ہے اگر اس کی سزا موت ہے تو صحافی موت سے نہیں گھبراتے بلکہ سچ کی خا طر اپنی جانیں دیتے رہیں گے اور مظلوموں،بے سہارہ لوگوں کی آواز بنتے رہیں گے اگر حق سچ کی آواز بلند کرنے والوں کو گولی کے زور پر ایسی طرح چپ کروایا جاتا رہا تو ایسا نہ ہو کہ ایک دن حق سچ کی آواز بلند کرنے والوں کی تعداد اتنی کم ہوجائے کہ لوگ انصاف کی خاطر غیر قانونی راستے تلاش کرناشروع کردیںجس سے معاشرے میں سچائی کی شمع ماند پڑ جائے تو آئیں آج یہ عہد کریں کہ سچ کی خاصر قربان ہونے والے ان صحافیوں کی آواز کو دبنے نہیں دیں گے اور ان کا ساتھ دے کرسچائی کی شمع کو بجنے نہیں دیں گے خدا ہم سب کا حامی وناصر ہو امین۔
تحریر میاں نصیر احمد