تحریر : یاسر رفیق
صحافی سب کے لیے بولتا ہے سب کے مسائل بیان کرتا ہے صحافی بھوکا ننگارہ کربھی بولتا ہے لیکن افسوس صحافی کے لیے کوئی نہیں بولتاصحافی بننا کوئی معمولی بات نہیں ، یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے نبھانے کے لیے ایک خاص قسم کی علمیت اور سمجھ درکار ہے- صحافی معاشرے کا وہ فرد ہوتا ہے جو عوام کو معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے علمی ذوق کے اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔
آج کا صحافی بے شمار مشکلات میں جھکڑا ہوا ہےصحافی کو بلیک میلر اور فراڈیہ سب برے القابات سے نوازا جاتا ہے لیکن صحافی سب کچھ سننے کےبعد پھر بھی عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم بھی صحافیوں سے پیار کرتے تھے۔ صحافت کے متعلق بانی پاکستان کا ارشا دہے۔’’قوم کی ترقی اور بہبود کیلئے صحافت ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ صحافت ہی وہ ذریعہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے جو قوم کی راہنمائی کرتا ہے اور رائے عامہ کی تشکیل کرتا ہے‘‘۔ایک اور جگہ قائد اعظم محمد علی جناح نے ارشاد فرمایا۔
’’صحافت ایک عظیم قوت ہے یہ فائدہ بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی ۔ اگر یہ صحیح طرح چلائی جائے تو رائے عامہ کی راہنمائی اور ہدایت کا فرض سر انجام دے سکتی ہے‘‘۔صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسا شخص بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتا تھا۔ قیام پاکستان میں بھی صحافیوں کا ایک نمایاں کردار ہے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے نامور صحافیوں نے اپنے اخباروں کے اداریوں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ان کا ذہن کھولا اور آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق میں ان صحافیوں کے قلم کا مثبت ہاتھ ہے۔
آج کے دور میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میڈیا بہت طاقتور ہے ہر چیز منظر عام پر لے آتا ہے اگر دیکھا جائے تو میڈیا کو طاقتور بنانے والے یہ صحافی ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کاوشوں اور بھرپور محنت سے اس میڈیا کو طاقتور بنایا۔ آمریت ہو یا جمہوریت، میڈیا اور صحافیوں کو ہر دور میں سچ اور حقیقت سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ صحافیوں پر الزامات لگانے والو یہ تو دیکھو کہ اکثر صحافی بڑے مشکل حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔
ان کی تنخواہیں سوائے چند کے بہت قلیل ہوتی ہیں اور انہیں اپنے بچوں کے پیٹ پالنے کے لیے دن رات محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس پر ان پر اس قسم کے الزامات ان کے جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ آج کا صحافی ماضی کے صحافی سے مختلف ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ اپنے کام سے گہری دلچسپی رکھتا ہے۔
حالات پر کڑی نظر رکھتا ہے اور خاص طورپر بہتر رپورٹنگ پر توجہ رکھتا ہے۔ صرف منفی صحافت سے گریز کرتا ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے اور ماضی کی روایات کے مطابق صرف حکومت کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ وہ حالات کا تجزیہ بھی کرتا ہے۔
ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کے علاوہ حال کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور مستقبل کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے۔ اس میں اشارے جس کے حق میں جائیں وہ خوش اور جس کی مخالفت میں جائیں اور ناراض۔ اس روایت میں شاید صحافی اگر اس طرح سے کام کرتے رہیں گے، سچ کہتے رہیں تو پھر الزام تو لگیں گے۔ تم الزامات لگاتے رہو ہم حق اور سچ کے لیے لڑتے رہیں گےہم بھوکے ننگے رہ کر بھی بولیں گے اور سب کے لیے بولیں گےیہی ہمارا مشن ہے یہی ہمارا مقصد ہے۔
آزادی صحافت زندہ باد
تحریر : یاسر رفیق
ای میل yasirrafique985@gmail.com
راولپنڈی ۔ پاکستان