تحریر: روہیل اکبر
دوستو 30 دسمبر کو لاہور پریس کلب کے الیکشن تھے پریس کلب کے الیکشن کا جو ماحول دیکھا گیا وہ لمحہ فکریہ ہے ہم سب کے لیے ‘بہت سارے ہمارے قابل احترام سنیئرزیہ کہتے سنے گئے کہ وہ آئندہ سال سوچیں گے کہ ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جانا چاہیے یا نہیں ؟یہ صورتحال کیوں پیدا ہوئی؟ اس کا ذمہ دارکون ہے ؟انتخابات میں اختلاف رائے ہوتا تھا پہلے بھی مگر گلی محلوں کے تھڑے بازوں والا ماحول نہیں دیکھا گیا تھا کبھی ،مگر اس دن تو لگا کہ کسی دودرازقصبے کے بلدیاتی انتخابات ہورہے ہیں شعبدہ بازوں کا زور نظرآرہا تھا جبکہ حقیقی صحافی عزت بچا نے کی کوشش میں مصروف رہے۔
لاہور پریس کلب کی تاریخ میں جو کبھی نہیں ہوا وہ بھی ہوا، سینئر صحافی بغیر ووٹ ڈالے ہی واپس چلے گئے اس موقعہ پر میں ارشد انصاری کی تعریف ذرور کرونگا کہ جنہوں نے حالات خراب ہونے پر فوری طور پر الیکشن سے دستبرار ہونے کا اعلان کردیا تھا مگر شہباز میاں اور شاداب ریاض نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں اس کام سے روکے رکھا۔
ماضی کے واقعات پر لڑنے کی بجائے ہمیں ان سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اپنی تحریروں ،تبصروں اور وعظوں میں دوسروں پر نشتر چلانے والے خود پر بھی ہونے والی تنقیدکو برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ صحافت کے نام پر قبضہ مافیا اور غنڈہ گردی کو پروان چڑھانے والوں کو بے نقاب بھی کیا جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر جو ریت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے اسے کوئی نہیں روک سکے گا اور یہ ابتداء تھی جو اس دن ہوا۔
خدا کا شکر ہے کہ اس دن مال روڈ پرفن وثقافت کے مرکز الحمراء میں گالی ہی چلی گولی نہیں۔اس لیے ہمیں ان دنگے فساد کی صحافتی سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے وقار اور کلب کے تقدس کی خاطر سب کو عزت دیں اسی میں ہماری فلاح وبہبود ہے کیونکہ پریس کلب صحافیوں کی وہ واحد تفریح گاہ اور تربیت گاہ ہونے کے ساتھ ساتھ صحافیوں کا داتا دربار بھی ہے جہاں انتہائی مناسب قیمت میں معیاری اور صاف ستھرا کھانا فراہم ہوتا ہے۔
پریس کلب کو صحافیوں کا داتا دربار اس لیے بھی کہا ہے کہ جس طرح فکر معاش کے سلسلہ میں آنے والے بہت سے افراد دربار داتا صاحب کے جاری لنگر سے اپنی بھوک مٹا کر اپنے کام دھندے میں مصروف ہو کر اپنے بچوں کے لیے بھی دال روٹی کا انتظام کرتے ہیں بلکل اسی طرح ہمارے بہت سے ایسے افراد جو شعبہ صحافت سے منسلک ہیں وہ اپنی محنت ،ایمانداری اور شرافت میں کسی سے کم نہیں مگر تنخواہوں کے ہاتھوں ضرور پریشان ہیں انکے لیے پریس کلب کی کینٹین کسی نعمت سے کم نہیں ہے جبکہ نئے آنے والے افراد کے لیے یہ ایک تربیت گاہ ہے جہاں بہت سے سینئر افراد انہیں اپنے تجربات کی روشنی میں بہت کچھ سکھا دیتے ہیں آج پریس کلب کو تالے لگانے کی باتیں بھی سنی جارہی ہیں۔
ایسی باتیں وہی افراد کرسکتے ہیں جن کے لیے صحافیوں کی فلاح وبہبود کے لیے کوئی پروگرام نہیں ہوتا پریس کلب اگر نہ ہوتا تو بہت سے نامور صحافی شائدآج اس مقام پر نہ ہوتے کیونکہ انکا اٹھنا بیٹھا اور اوڑنا بچھونا لاہور پریس کلب ہی ہوتا تھا جہاں سے انہوں نے اپنی ابتدائی عملی زندگی کا آغاز کیا جس طرح لاہور پریس کلب صحافیوں کا داتا دربار ہے بلکل اسی طرح اسلام آباد جیسے مہنگے ترین شہر میں پریس کلب بھی صحافیوں کے لیے کسی نعمت خداوندی سے کم نہیں ہے ایسے ادارے جہاں صحافیوں کی عملی تربیت گاہیں ہیں وہی پر انہیں مشکلات اور پریشانیوں سے نکلنے کا راستہ بھی ملتا ہے۔
اب لاہور پریس کلب کے الیکشن ایک بار پھر ہونے جارہے ہیں امید ہے اس بار ہم پرانی باتوں کو دفن کرکے ایک اچھے اور پڑھے لکھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے ووٹ کی طاقت سے وہ کردیں جو ہم چاہتے ہیں کیونکہ پریس کلب کی در ودیوار کو اگر کوئی نقصان پہنچا تو پھر وہ ہم سب کے لیے ناقابل معافی اور تلافی ایسا جرم ہو گا جس کا خمیازہ نہ صرف لاہور کے صحافیوں کو بھگتا پڑے گا بلکہ اسکے اثرات ملک کے باقی شہروں تک بھی جائیں گے اور عالمی سطح پر جو بدنامی کا داغ ہم پرلگے گا وہ کبھی دھلنے کا نام نہیں لے گا۔
اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بطور صحافی ہی الیکشن میں حصہ لیکر اپنے آپ کو صحافی ہی کہلوائیں نہ کہ ہم سیاسی بن جائیں جو لوگ اس الیکشن کو صحافتی الیکشن کی بجائے سیاسی الیکشن بنانا چاہتے ہیں ان سے گذارش ہے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی نمائندگی کرتے ہوئے عام الیکشن میں حصہ لے لیں خدارا صحافت کو سیاست سے پاک رکھیں کیونکہ درباروں ،خانقاہوں اور اداروں میں سبق پڑھایا جاتا ہے شجاعت کا ،عدالت کاجسکے بعد ان سے پھر کا م لیا جاتا ہے دنیا کی امامت کا۔
تحریر: روہیل اکبر