اسلام آباد(ایس ایم حسنین) امریکی حکومت کی سفری پابندیوں کے سبب امریکہ میں کام کرنے والے غیر ملکی صحافی مشکل میں پڑ گئے ہین۔ تفصیلات کے مطابق امریکی خبررساں ادارے وائس آف امریکہ واشنگٹن میں کام کرنے والے تقریباً 76 غیر ملکی صحافیوں میں سے جن کے ویزے اس مہینے ختم ہو رہے ہیں، خدشہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے ویزوں کی تجدید نہ ہو سکے۔ اور انھیں اپنے ملکوں کو واپس لوٹنا پڑے۔ امریکی ایجنسی فار گلوبل میڈیا کے ایک ترجمان کے مطابق ایجنسی جے ون ویزے کی تجدید سے متعلق ہر معاملے کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لے رہی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ایجنسی کے پاس اس وقت ایسے 62 کنٹریکٹر اور 14 کل وقتی ملازم کام کر رہے ہیں جو امریکہ میں جے ون ویزا پر ہیں۔ یو ایس اے جی ایم کے دوسرے اداروں میں کام کرنے والے صحافیوں کی ایک نامعلوم تعداد بھی اس صورت حال سے متاثر ہو سکتی ہے۔ اس وقت تک کسی بھی صحافی کی اپنے جے ون ویزے کی تجدید کی درخواست مسترد نہیں کی گئی۔ لیکن کم از کم ایک صحافی ایسا ہے کہ جن کے ویزے کی تجدید کی مدت گزر چکی ہے اور ان کے پاس امریکہ سے واپس جانے کی مدت اس مہینے کے آخر تک ہے؛ جب کہ امریکہ کے دوسرے صحافیوں کے اپنے آبائی ملکوں کو واپس جانے کے لیے چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔ کئی صحافیوں کو خطرہ ہے کہ امریکہ کے لیے رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں انتقامی کارروائی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ یو ایس اے جی ایم کے ترجمان نے کہا ہے کہ ویزے پر نظرثانی کا مقصد ایجنسی کے انتظام کو بہتر بنانا، امریکہ کی قومی سلامتی کا تحفظ اور یہ یقینی بنانا ہے کہ ملازمت دینے کے اختیارات کا غلط استعمال نہ ہو۔ جے ون ویزہ کیٹیگری کے تحت منفرد مہارتیں رکھنے والے ان افراد کو امریکہ میں نان امیگرنٹ کی حیثیت سے داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے، جنہیں ایکس چینج وزیٹر پروگراموں کی بنیاد پر کام اور تعلیم میں حصہ لینے کے لیے منظور کیا جاتا ہے۔ انہیں کئی سال کی مدت کے لیے ویزہ جاری کیا جاتا ہے جس کی تجدید کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ جے ون کئی دوسرے ایسے ویزوں میں شامل ہے جن پر ٹرمپ انتظامیہ نے عالمی وبا کرونا وائرس سے مقابلے کے سلسلے میں عارضی طور پر پابندی لگا دی ہے، کیونکہ انتظامیہ کا خیال ہے اس طرح کے ویزے رکھنے والے افراد نے امریکی شہریوں کی ملازمتیں لے لی ہیں۔
چونکہ 40 سے زیادہ زبانوں میں اعلیٰ معیار کا پروفیشنل جرنلزم فراہم کرنا مینڈٹ میں شامل ہے، اس لیے وائس آف امریکہ اپنے پروگراموں کو آن ایئر کرنے کے لیے مطلوبہ صحافتی معیار اور زبان کی مہارتیں رکھنے والے زیادہ سے زیادہ امریکی شہری ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان واقعات میں عرصہ دراز سے زیادہ تر ان ملکوں سے افراد بھرتی کرنے پر انحصار کیا گیا جہاں کے لیے پروگرام پیش کیے جاتے ہیں یا ان نئے امیگرنٹس کو لایا گیا جو امریکی شہری بننے کے لمبے عمل سے گزر رہے ہیں۔ وائس آف امریکہ اور دوسری سرکاری ایجنسیاں جے ون ویزے کے دوبارہ اجرا کے لیے معمول کے مطابق اس کی جانچ پڑتال کرتی ہیں جنہیں ملازمت فراہم کرنے والوں کی جانب سے فائل کیا جاتا ہے اور محکمہ خارجہ کو بھیج دیا جاتا ہے۔ ماضی میں وی او اے کے کئی غیر ملکی صحافیوں کو اپنی ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا جن کے ویزوں کی تجدید نہیں ہوئی تھی۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس سال یو ایس اے جی ایم کا طریقہ کار ماضی سے کس طرح مختلف ہو گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ایجنسی کی منیجمنٹ کو بہتر بنانے اور امریکہ کی قومی سلامتی کے تحٖفظ کے لیے یہ تعین کرنا بہت ضروری ہے کہ اختیارات اور انفرادی پریکٹس کا غلط استعمال نہ ہو۔ اس لیے یو ایس اے جی ایم پرسنل سروسز کے ان کنٹریکٹرز (پی ایس سی) کا، جو جے ون ویزے پر ہیں، ہر کیس کا الگ الگ تفصیلی جائزہ لیا لے رہا ہے۔ اس وقت تک یو ایس اے جی ایم نے وائس آف امریکہ کے اس سوال کا جواب نہیں دیا ہے کہ کیا اس سال ان کل وقتی ملازمین کو بھی ریویو کے عمل سے گزرنا پڑے گا جن کے پاس جے ون ویزا ہے”۔
یو ایس اے جی ایم کے سی ای او مائیکل پیک کو دو سال سے زیادہ عرصہ پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایجنسی کی قیادت کے لیے نامزد کیا تھا۔ لیکن ڈیموکریٹکس کی جانب سے اس تعیناتی پر مخالفت کی وجہ سے ان کی کنفرمیشن جون تک رکی رہی۔ ان کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے یو ایس اے جی ایم کے پانچ میڈیا نیٹ ورکس کے سربراہ یا تو ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں یا انہیں برطرف کر دیا گیا ہے۔ پیک نے اس مہینے واشنگٹن ٹائمز کو ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ ماضی کی بدانتظامیاں درست کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک یہاں میرے منصوبوں کا تعلق ہے تو میرا خیال ہے کہ وائٹ ہاؤس میں ہر کوئی اور دوسری کسی بھی جگہ موجود ہر شخص جانتا ہے کہ ان ایجنسیوں کو اپنا مشن پورا کرنے کے لیےجواب دہ بنایا جائے اور جہاں تک وائس آف امریکہ کا تعلق ہے تو وہ اس کا چارٹر ہے اور میں یہی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔