تحریر: فرخ شہباز وڑائچ
وہ ایک حاکم تھے۔ وہ ایک مرتبہ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ جو تم نے کپڑا پہنا ہوا ہے وہ زیادہ ہے جبکہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا۔تو عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، عبداللہ بن عمر کھڑے ہوگئے۔ عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ بیٹا بتاؤ کہ تیرا باپ یہ کپڑا کہاں سے لایا ہے ورنہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں قیامت تک اس منبر پر نہیں چڑھوں گا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بتایا کہ بابا کو جو کپڑا ملا تھا وہ بہت ہی کم تھا اس سے ان کا پورا کپڑا نہیں بن سکتا تھا۔ اور ان کے پاس جو پہننے کے لباس تھا وہ بہت خستہ حال ہو چکا تھا۔ اس لئے میں نے اپنا کپڑا اپنے والد کو دے دیا۔
سلطان غیاث الدین سکندر شاہِ بنگال میں وہ ان فرما نرواؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے اسلامی شریعت کی متابعت میں کوئی فرق نہ آنے دیا۔حتیٰ کہ ایک دن ایساآیاجب وہ خودبھی گرفت میںآگئے۔ یہ اس دن کی بات ہے جب سلطان غیاث الدین تیراندازی کی مشق کررہے تھے کہ ناگہاں ایک تیر کمان سے نکل کردورایک بیوہ عورت کے بچے کو جالگا۔یہ بیوہ عورت اس وقت کے قاضی سراج الدین کی عدالت میںآئی اور سارا واقعہ بیان کرکے انصاف کی طالب ہوئی۔
چونکہ ملک میں تمام فیصلے شریعت اسلامی کے تحت ہوتے تھے۔اس لیے فیصلہ دینے والے اپنے آپ کوخداکے سامنے جوابدہ سمجھتے تھے۔بیوہ کی رو دادسننے کے بعدقاضی سراج الدین نے سلطان کو طلب کرنے کے لیے ایک پیادہ روانہ کیا۔ پیادے کے جانے کے بعدانہوں نے ایک درّہ اٹھاکراپنی مسندکے نیچے چھپالیا۔
پیادہ کے لیے دربارکے پاس پہنچناآسان نہ تھا،چنانچہ اس نے اذان دینی شروع کردی۔ اذان سْن کر سلطان غیاث الدین نے اسے دربار میں طلب کرلیا اوربے وقت اذان دینے کی وجہ دریافت کی۔
پیادے نے کہا:”سلطان معظم!مجھے آپ تک پہنچنا ممکن نظر نہیں آرہا تھا، چنانچہ میں نے اذان سے مددلی۔” پھر اس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا اور کہا کہ آپ قاضی سراج الدین نے عدالت میں طلب فرمایاہ ے کیونکہ آپ کے تیرسے ایک بیوہ کے بچے کوزخم لگاہے۔ سلطان غیاث الدین اٹھ کھڑے ہوئے لیکن چلنے سے پہلے انہوں نے ایک تلواراپنے کپڑوں میں چْھپالی اورپیادے کے ساتھ عدالت روانہ ہوگئے وہ عدالت میں پہنچے توقاضی سراج الدین نہ ان کی تعظیم کے لیے اٹھے اورنہ ان کی جانب کوئی التفات کیا۔ بلکہ بیوہ کو اپنابیان دْہرانے کے لیے کہا۔بیوہ نے بیان مکمل کیاتوقاضی نے سلطان کی طرف دیکھا۔
سلطان غیاث الدین نے اپنی غلطی کا اعتراف کرلیا۔ اس پرقاضی نے کہا:”اگریہ بیوہ خاتون راضی نہیں ہوتی اور آپ کومعاف نہیں کرتی تو آپ پرشرعی حدجاری ہوگی۔” سلطان نے سرتسلیم خم کیااوربیوہ سے معذرت کرتے ہوئے اس کے سامنے معقول رقم اس تکلیف کے سلسلے میں پیش کی جواسے اوراس کے بچے کوپہنچی تھی۔ ضعیفہ نے سلطان کی معذرت قبول کرلی۔ سلطان نے قاضی سے کہا”جناب ! میرے اورضعیفہ کے درمیان اب کوئی جھگڑا نہیں رہا۔”
قاضی نے ضعیفہ سے پوچھا:”اے خاتون، کیاآپ نے انصاف پالیااورآپ راضی ہو گئیں؟” ضعیفہ نے کہا:”جی ہاں’مجھے انصاف مل گیا اورمیں راضی ہوگئی۔”
مقدمے کافیصلہ ہوگیاتوقاضی سراج الدین اْٹھے اورسلطان کوادب کے ساتھ مسند پر بٹھایا۔اس وقت سلطان نے اپنی چھپائی ہوئی تلوارنکالی اورکہا۔ ”قاضی صاحب !میں اسلامی شریعت کے مطابق آپ کی عدالت میں حاضرہوگیاتھا۔اگر آپ شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرتے تویہ تلوار آپ کوختم کردیتی۔”
قاضی سراج الدین نے بھی مسندکے بیچے چھپایاہوْادرّہ نکالااورکہا: ”اے سلطان !اگرآج میں آپ کوذرابھی شریعت کے خلاف چلتے ہوئے دیکھتاتوخداکی قسم اس درّے سے آپ کی کمرسرخ کردیتا۔” سلطان نے تلوارایک طرف رکھ دی: ”قاضی نے درّہ ایک طرف ڈال دیا۔اورپھر سلطان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:”آج ہم دونوں کے امتحان کادن تھااورخداکاشکرہے کہ اس کی دی ہوئی شریعت ہمارے درمیان موجود تھی۔اییک طرف ہمارا ماضی ہے،تاریخ کے صفحات پر جانے سے پہلے پچھلے چند سالوں میں حکمرانوں کے بیانات پر نظر ڈالیں تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ہماری پچھلی حکومت کے ایک وفاقی وزیر نے پوری دنیا کے سامنے ”کرپشن میںمساوات ”کا نعرہ بلند کیا تھا ہم نے اس بات پر قہقے لگائے تھے،آپ سابق وزیراعلی بلوچستان کو دیکھ لیجیے انہوں نے کہا”ڈگری ،ڈگری ہوتی ہے چاہے جعلی ہو یا اصلی” یہ بیان ان دنوں کی بات ہے
جب ہر گزرتے روز کے ساتھ اسمبلی کے اراکین کی ڈگریاں جعلی ثابت ہورہیں تھیں،ہم نے اس نازک موقع پرہنسنے سے کام چلایا۔آپ موجودہ وزیراعلی سندھ کی طرف نظر کریں تھر میں 300سے زائد بچے بھوک کی وجہ سے جان سے جاتے ہیں تو موصوف کہتے ہیں ”بچے بھوک سے نہیں غربت سے مررہے ہیں” حضور یہ غربت کس بلا کا نام ہے۔۔؟آپ وزیر مملکت عابد شیر علی کا تازہ بیان سنیں تو سمجھ میں نہیں آتا اس پرہنسا جائے یا رویا جائے۔۔۔پاک انڈیا میچ سے پہلے فرماتے ہیں پاکستان کی جیت کی صورت میں ایک ماہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی” گویا میچ ہارنے کی صورت میں سزا لوڈ شیڈنگ کی صورت میں دی جائے گی۔آپ ہمارے حکمرانوں کی سنجیدگی دیکھیے یہ وہی حکمران ہیں جو میرے اور آپ کے ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آتے ہیں۔ایک طرف طرز حکمرانی یہ ہو دوسری طرف ذمہ داری کا احساس نہ ہو،آپ اپنی تاریخ کا مطالعہ کریں
اور پھر موجودہ حکمرانوںکے رویے ملاحظہ کیجیے،آپ کو ایسا لگے گاہم بحثیت قوم ہر نازک دور میں قہقے بلند کرتے آئیں ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے قہقوں کی آوازیں مزید بڑھ رہی ہے، ہم خود اپنے ہاتھوں اپنی تاریخ کا مذاق اڑارہے ہیں اورہمیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔۔۔!
تحریر : فرخ شہباز وڑائچ