تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
مستقبل کی خاتونِ اوّل محترمہ ریحام خاںکی سالگرہ کے موقعے پر نوازلیگ نے اُنہیںجوڈیشل کمیشن کاتحفہ دے کرہمارے کپتان صاحب کاجی خوش کردیا ۔ صدارتی آرڈیننس جاری ہوچکاجس کے تحت سپریم کورٹ کے تین معززجج صاحبان اِن تین بنیادی سوالوںکا جواب تلاش کریںگے کہ آیا 2013ء کے عام انتخابات منظم، ایماندارانہ ،شفاف ،غیرجانب دارانہ اورقانون کے مطابق تھے یاپھر دھاندلی ہوئی ۔اگر دھاندلی ہوئی توپھر کیامنظم اندازمیں کسی منصوبے کے تحت اِن انتخابات پراثرانداز ہونے کی کوشش کی گئی؟۔ تیسرابنیادی سوال یہ ہے کہ کیامجموعی طورپر 2013ء کے انتخابی نتائج درست ہیںاور اِن میںعوام کی جانب سے دیئے گئے مینڈیٹ کی درست عکاسی ہوتی ہے ؟۔تحقیقاتی کمیشن میںاگریہ ثابت ہوجائے کہ عام انتخابات میںمسلم لیگ نون کواقتدار میںلانے کے لیے منظم اندازمیں دھاندلی ہوئی تھی توپھر بھی اِس آرڈیننس میں وزیرِاعظم کے استعفے یااسمبلیوںکی تحلیل کرنے کی کوئی بات شامل نہیں۔گویااِس تحقیقاتی کمیشن کی کوئی آئینی حیثیت ہے نہ قانونی اوریہ صرف اخلاقی بنیادوںپر قائم کیاگیا ایساکمیشن ہوگاجس کی تحقیقات اورسفارشات پرعمل درآمدبھی صرف اخلاقی بنیادوںپر ہی کیاجا سکے گا، آئینی وقانونی بنیادوںپر نہیں۔ اب یہ اعلیٰ عدلیہ نے طے کرناہے کہ کیا ایساکوئی کمیشن تشکیل پابھی سکتاہے یانہیں۔
کمیشن کی تشکیل کی صورت میںبھی بہت سے ایسے سوالات جنم لیتے نظرآتے ہیںجن کاجواب آنے والے وقتوںمیں ہی دیاجا سکتاہے ،مثلاََاگر تحقیقاتی کمیشن یہ طے کردیتا ہے کہ عام انتخابات میںمنظم دھاندلی ہوئی توکیا وزیرِاعظم صاحب قومی اسمبلی تحلیل کردیں گے؟۔ سندھ اوربلوچستان (جہاںانتخابی دھاندلیوںکا اتناشور نہیںجتنا پنجاب میںہے )کیااِن دونوںصوبوں کے ا ربابِ اختیاراپنی حکومتیںختم کرنے کے لیے تیارہو جائیںگے؟۔ خیبر پختونخوا کے انتخابات کے بارے میںتوخاںصاحب متعددبار یہ کہہ چکے ہیںکہ وہاںانتخابات شفاف ہوئے ۔کیا خیبرپختونخواکی حکومت بھی ختم کردی جائے گی؟۔ اوراگر ایساہوا توکیا یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین نہیںہوگی؟۔سوالات تواور بھی بہت سے ہیںلیکن ابھی توعدالتی کمیشن بھی تشکیل نہیںپایا اِس لیے ہم انہیں”قبل ازمرگ واویلا ”کے مصداق ٹھہراتے ہوئے یہیںپر چھوڑتے ہیں۔
ایم کیوایم اوراے این پی کے بزرجمہروںکی ماہرانہ رائے یہ ہے کہ یہ سب ”مُک مکا”کی سیاست ہے۔ایم کیوایم والے کہتے ہیںکہ کپتان صاحب کی زبان توپیپلزپارٹی اورنوازلیگ پرمُک مکاکا الزام دھرتے نہیںتھکتی تھی لیکن اب وہ بھی اسی سیاست کاحصّہ بن گئے لیکن ہماری ”ارسطوانہ”سوچ کے مطابق ایساہرگز نہیںالبتہ یہ ضرورکہ تحریکِ انصاف نے بعداز خرابیٔ بسیاراُسی پراکتفا کر لیاجوکچھ وزیرِاعظم صاحب نے 12 اگست 2014ء کواپنے قوم سے خطاب میںدینا چاہالیکن کپتان صاحب نے صاف انکارکردیا ۔سچ تویہ ہے کہ تحریکِ انصاف اُس سے بہت کم پرراضی ہوگئی جواُسے دھرنوںکے دنوںمیں دیا جارہا تھا ۔تب چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف صاحب نے خاںصاحب کویہ کہاتھا کہ اگروہ وزیرِاعظم کے استعفے سے پیچھے ہٹ جائیںتو باقی تمام مطالبات حکومت سے منوائے جاسکتے ہیںلیکن اُس وقت خاںصاحب ہواکے گھوڑے پرسوارتھے کیونکہ اُن کے صلاح کارلال حویلی والے شیخ رشیدجیسے لوگ تھے جنہیںکسی زمانے میںکپتان صاحب اپنا ”چوکیدار”رکھنابھی پسندنہیں کرتے تھے ۔بہرحال دیرآید ، درست آیدکے مصداق حکومت اورتحریکِ انصاف جوڈیشل کمیشن کے نکات پرمتفق ہوگئے اورصدارتی آرڈیننس بھی جاری ہوگیا ۔اِس صدارتی آرڈیننس کی تشکیل کے بعد سیاسی جماعتوںنے نہ صرف اسے سراہابلکہ سُکھ کاسانس بھی لیاکیونکہ کپتان صاحب ایک دفعہ پھر”اوکھے اوکھے” بیانات دینے لگے تھے۔
نوازلیگ اورتحریکِ انصاف میں جن نکات پر اتفاق ہواہے اُنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے تویہ نظرنہیں آتاکہ تحریکِ انصاف کے ہاتھ کچھ آنے والاہے کیونکہ کسی بھی صورت میںیہ ثابت نہیںکیا جاسکتا کہ 2013ء کے الیکشن میں ”منظم دھاندلی”ہوئی اوراِس دھاندلی کے پیچھے نوازلیگ کاہاتھ تھا ۔تحریکِ انصاف کے پاس کوئی ثبوت موجودنہیں۔کنٹینرپر کھڑے ہوکر کاغذوںکے پلندے ہوامیں لہرانا اوربات ہے اورجوڈیشل کمیشن میںثبوت پیش کرکے اپنی بات ثابت کرنایکسر مختلفدوسری طرف نوازلیگ کے پاس کہنے کوبہت کچھ ہے۔سبھی جانتے ہیںکہ چاروںصوبوں اورمرکز کی نگران حکومتوںمیں وہی لوگ آئے جو پیپلزپارٹی کے منتخب کردہ تھے ۔چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کی دیانتداری پرعمران خاںصاحب کواندھا اعتمادتھا ۔نجم سیٹھی کے انتخاب کواُنہوں نے سراہا اورخود ضِد کرکے 2013ء کے الیکشن عدلیہ کے زیرِنگرانی کروائے ،یہ الگ بات ہے کہ حسبِ منشاء نتائج نہ آنے پرخاںصاحب نے ”آراوز”کے کردارکو ”شرمناک” قراردیا جس پراُنہیںسپریم کورٹ آف پاکستان سے یہ کہہ کرجان چھڑوانی پڑی کہ اُنہیںتو پتہ ہی نہیںتھا کہ” شرمناک” گالی ہوتی ہے ۔اُنہوںنے چیف جسٹس آف پاکستان افتخارمحمدچودھری صاحب کوبھی اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعدالیکشن دھاندلی میںملوث قراردیتے ہوئے سرِعام یہ کہا”چودھری صاحب ! آپ کتنے میںبِکے؟”۔افتخارچودھری صاحب ، محترم خاںصاحب کے خلاف ہتک عزت کادعویٰ کرچکے ہیںاور صدارتی آرڈیننس کے بعدوہ بھی یہ کہہ رہے ہیںکہ اب عمران خاںصاحب کوجوڈیشل کمیشن میںیہ ثابت کرناہوگا کہ میںالیکشن دھاندلی میںملوث تھا۔
اُنہوںنے کہا”میرے نزدیک یہ بہت اچھّاموقع ہے کہ میںجو الزامات عمران خاںنے مجھ پرلگائے ہیں ،اُن کابہت اچھّا جواب دوں” ۔پنجاب کے سابق نگران وزیرِاعلیٰ نجم سیٹھی بھی خاںصاحب کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میںجا چکے ہیں۔خاںصاحب نے کہاتھا کہ انہوںنے وہ آڈیوٹیپ خودسنی جس میںنجم سیٹھی صاحب 35 پنکچروںکا ذکر کررہے تھے ۔نجم سیٹھی کہتے ہیںکہ اب خاںصاحب کووہ آڈیوٹیپ بھی جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کرنی ہوگی جس کاسرے سے وجودہی نہیں۔ خاںصاحب نے جنگ جیوگرپ پربھی الزام لگایاکہ 2013ء کی الیکشن دھاندلی میںیہ گروپ بھی ملوث تھا ۔اُنہوںنے توکافی عرصے تک جنگ جیوگروپ کابائیکاٹ بھی کیے رکھا ۔جسٹس خلیل رمدے صاحب پربھی دھاندلی میںملوث ہونے کے الزامات لگائے گئے حالانکہ وہ تو الیکشن سے پہلے ہی ریٹائرہو چکے تھے ۔ایسے ہی الزامات تمام الیکشن کمشنرزپربھی لگائے گئے اب سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگریہ سبھی لوگ انصاف کی خاطر سپریم کورٹ کے سامنے دھرنادے کربیٹھ گئے تو 45 دنوںمیں تحقیقاتی کمیشن کیسے فیصلہ کرپائے گا؟۔
ہماراعدالتی نظام توایساہے کہ ”دادا”کیس کرتاہے اور”پوتا” فیصلہ سنتاہے جبکہ یہاںتو ہزار بارہ سو انتخابی حلقوںکی تحقیقات مقصودہے ۔ایسے میںیہ کیسے ممکن ہے کہ صرف پینتالیس دنوںمیں تحقیقاتی کمیشن اِن تین بنیادی سوالوںکا جواب دے پائے ۔اِس لیے ہم یہی سمجھتے ہیںکہ نوازلیگ نے تحریکِ انصاف کے ساتھ ”ہَتھ” کردیا ہے اوربہتر یہی ہے کہ تحریکِ انصاف کے سبھی اراکین ”نیویںنیویں” ہوکر اسمبلیوںمیں چلے جائیںکیونکہ اسی میںاُن کابھلا ہے ۔اگر اُنہوںنے یہ موقع بھی گنوادیا توپھر سوائے پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیںآئے گا۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر