تحریر : زاہد محمود
پچھلے 6 ضمنی انتخابات میں پے در پے شکستوں کے بعد تحریک انصاف کا مورال بہت گر چکا تھا رہی سہی کسر جوڈیشل کمیشن کے فیصلے نے پوری کر دی مگر تحریک انصاف کی قیادت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ انھیں دوبارہ کھڑا ہونے کا کوئی نہ کوئی موقع مل جاتا ہے اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہے خواجہ سعد رفیق کے فیصلے کے بعد این _اے 122 اور این _ اے 154 کی انتخابی عذرداریوں کے فیصلوں نے تحریک انصاف کے مؤقف کو نہ صرف تقویت دی بلکہ حکومتی مؤقف کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے اسکے ساتھ ساتھ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر بھی کافی سارے سوالات اٹھا دیے ہیں اب عمران خان پورے اعتماد کے ساتھ دوبارہ سے میدان میں آچکے ہیں اور الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی اراکین کے مستعفی ہونے کے مطالبے کو ایک دفعہ پھر سے دہرا دیا ہے اور مطالبہ پورا نہ ہونے پر پھر سے دھرنا دینے کا اعلان کر دیا ہے اب کی بار پیپلز پارٹی نے بھی انکے مؤقف کی بھی بھرپور حمایت کی ہے اور چاروں صوبائی اراکین سے از خود مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں بھی الیکشن کمیشن کی اہلیت پر مختلف سوالات اٹھائے گئے ہیں اور انکی خامیوں کو سامنے لایا گیا ہے الیکشن کمیشن کی کارکردگی ، اہلیت اور انتخابی خامیوں کی بہتری کے لئے کچھ سوالات اور گزارشات ذیل میں پیش خدمت ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے ترقی کی ہے انھوں نے سزا اور جزا کے اصولوں پر سختی سے گامزن رہتے ہوئے ترقی کی ہے جبکہ ہماری تاریخ اس معاملے میں داغدار ہے ہم نے ” مٹی پاؤ ” فارمولے کو اپنا شعار بنایااو ر ” نظریہ ضرورت ” کو کامیابی کا زینہ سمجھ لیا اور اسی نظریہ ضرورت کا نتیجہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے جو بھی شخصیت بر سر اقتدار آتی ہے وہ اپنے آپکو مختارکل سمجھنا شروع کر دیتی ہے اور آئین اور قانون کو ایک مذاق سمجھ لیا جاتا ہے اور جابرانہ طرز حکومت کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ ارض پاک میں کم و بیش تمام کے تمام انتخابات میں اداروں کی مداخلت اور دھاندلی کے الزامات لگے لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار جوڈیشل کمیشن میں 21 جماعتوں نے دھاندلی کا الزام لگایا اور تحریک انصاف نے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف سب سے مؤثر آواز اٹھائی اسی آواز کے نتیجے میں انھوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا اور مستعفی ہوگئے آئینی طور پر انکے استعفے منظور ہو گئے لیکن ” نظریہ ضرورت ” کے تحت انکے استعفے منظور نہیں کیے گئے۔
انتخابات میں ہونے والی بے ضابطگیاں کتنے پیمانے پر ہوئیں اور ہمارا انتخابی نظام کس حد تک انکو روکنے میں ناکام رہا اسکا اندازہ نادرہ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جس میں صرف این _ اے 154 میں بیس ہزار سے زائد بوگس شناختی کارڈز پر ووٹ ڈالنا اور سینکڑوں لوگوں کا ایک سے زیادہ مرتبہ ووٹ ڈالنا ہے لا تعداد ووٹوں کی تصدیق بھی نہیں ہوسکی تقریباُ یہی صورتحال این _اے 122 کی بھی ہے کراچی کے جتنے حلقوں کی نادرا کے ذریعے تفتیش کرائی گئی ان سب میں بھی اسی طرح کی صورتحال تھی لیکن الیکشن کمیشن کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگی الیکشن کمیشن اپنی ناکامیوں پر ” مٹی پاؤ ” نظریہ سے کام چلانا چاہتا ہے جبکہ اس ملک کا وہ طبقہ جو صاف شفاف انتخابات چاہتا ہے وہ ایسے اقدامات کا طلبگار ہے جس سے کسی کا ووٹ چوری نہ کیا جا سکے کسی کے حق انتخاب پر ڈاکہ ڈالنے کی جرات نہ کی جاسکے ہمارے ملک کی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی جمہوریت نہیں ہے
سیاسی جماعتیں جمہوری روایات کی پاسداری نہیں کرتیں سیاسی جماعتیں اگر خود سے جمہوری روایات کی پاسداری کرتیں تو ممکن نہیں ہے کہ انکے کارکن اس طرح کی حرکتیں کریں یہاں لفظ کارکن کا استعمال جان بوجھ کر رہا ہوں میں نہیں سمجھتا کہ کسی کی آشیر آباد کے بغیر کوئی شخص یا اشخاص کا گروہ ایک سے زیادہ دفعہ ووٹ ڈالنے کی جرات کرسکتا ہے ایسا پولنگ ایجنٹس اور پریزائڈنگ افسران کی مرضی کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے تحریک انصاف ان حلقوں میں دوبارہ انتخابات کا سن کر خوش ہو رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی میدان میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ہے مسلم لیگ ن نے میدان میں اترنے کا فیصلہ کر کے ایک جوا کھیلا ہے جس میں اگر وہ جیت جاتے ہیں تو اگلے انتخابات میں کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے انکو ٹف ٹائم دینا مشکل ہو جائے گا جبکہ ان حلقوں سے ہارنے کی صورت میں مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو تو کوئی فرق شاید نہ پڑے لیکن انکے لئے لاہور کو سنبھالنا حد سے زیادہ مشکل ہو جائے گا
لاہور ہاتھ سے نکلنے کی صورت میں مسلم لیگ ن باقی شہروں میں بھی اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی اب سوال یہ ہے کہ کیا اسی الیکشن کمیشن اور اسی نظام کے تحت جس میں ووٹوں کی شناخت ممکن نہ ہو تحریک انصاف شکست کی صورت میں اپنی ہار کو تسلیم کرے گی ؟یقینا نہیں کرے گی لہذا ضرورت اس امر کی ہے الیکشن کمیشن کے اراکین کو از خود مستعفی ہو کر ایک مثال قائم کرنی چاہئے کیونکہ وہ مثالی انتخابات کروانے میں ناکام رہے ہیں اس سے پہلے میری چیف الیکشن کمشنر صاحب سے یہ درخواست ہے کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے ایک سے زیادہ دفعہ ووٹ ڈالے ان سب کو کم از کم 3 ماہ کے لئے جیل بھیجا جائے تاکہ لوگوں کا اور سیاسی جماعتوں کا اعتماد آپ پر بحال ہو یہ درست کہ خان صاحب جو مطالبات کر رہے ہیں کہ پریزائڈنگ افسران و ریٹرنگ افسران کے خلاف کارروائی کی جائے ایک مثالی جمہوری ریاست میں تو ممکن ہے مگر پاکستان کی جمہوریت میں ایسا ممکن نہیں لہذا کم از کم ان لوگوں کو جنہوں نے ایک سے زیادہ فعہ ووٹ ڈالا انکو سزا ضرور دی جاسکتی ہے
ایسا حکومت بھی کر سکتی ہے ضرورت اب آگے بڑھنے کی ہے نہ توخان صاحب 2013 سے آگے بڑھ پارہے ہیں اور نہ ہی یہ سسٹم اور حکومت ، اگر یہی صورتحال رہی تو آگے ایک بہت بڑا بحران نظر آرہا ہے عمران خان نے اگر دھرنا دینے کا فیصلہ کر لیا تو الیکشن کمیشن اور حکومت کے لئے بہت سارے مسائل پیدا ہو جائیں گے اور موجودہ صورتحال میں جب انکی 3 وکٹیں بھی گر چکی ہیں کسان اور تاجر سڑکوں پر ہیں اور قصور واقعے نے پنجاب حکومت کی ” گڈ گورننس ” کا پول کھول کر رکھ دیا ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ مسلم لیگ ن اپنی سیاست پر کوئی اچھے اثرات چھوڑے گی اب اگر این اے 118 اور 110 کا فیصلہ بھی انکے خلاف آجاتا ہے تو اٹک کے حلقے جو کہ سٹے آرڈر پر چل رہے ہیں وہ بھی لازمماُ کھولنا پڑیں گے اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا
پیپلز پارٹی جو اب ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری کے بعد مسلم لیگ ن سے نرم رویہ اختیار رکھنے کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور ایم کیو ایم بھی اپنی مرضی کی شرائط منوائے بغیر اسمبلی میں واپس نہیں آئے گی اس صورتحال میں حکومت کے لئے ” ڈلیور ” کرنا مزید مشکل ہوگا اور اب ڈالر کی قیمت بھی بہتر ہوتی جارہی ہے جس سے معیشت پر مزید بوجھ پڑنے کے امکانات ہیں تو لہذا حکومت وقت اور الیکشن کمیشن دونوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنی انا کو ایک طرف رکھ کر ملک و قوم کی بہتری کے لئے فیصلے کرنے چاہئیں اور ایک گزارش جناب عمران خان صاحب سے بھی ہے ہری پور میں آپکا نظریہ جیت گیا ہے لیکن آپکی سیاست ہار گئی ہے
لوگ اب تبدیلی چاہتے ہیں اور انھوں نے علاقائی سٹیٹس کو کے خلاف ووٹ دیا ہے نوشتہ دیوار سب کو پڑھ لینا چاہئے آپکا پولیس اور پٹوار میں بہتری کرنا سب کو نظر آرہا ہے لیکن صحت اور تعلیم میں اب تک وہ کارکردگی نہیں دکھائی جاسکی
جس کی توقع تھی نہ ہی سستی ٹرانسپورٹ اور ٹیکس فری انڈسٹری کے لئے کوئی منصوبہ بنایا جا سکا ہے وجوہات چاہے جو بھی ہوں لوگ اب صرف باتیں نہیں کام بھی دیکھیں گے اور اس وقت کام صرف اور صرف فوج بہتر کر رہی ہے اور جنرل راحیل شریف اس وقت عوام وخواص کے پسندیدہ شخصیت بن چکے ہیں آگے آپ سب سمجھدار ہیں۔
تحریر : زاہد محمود