اسلام آباد (جیوڈیسک) جوڈیشل کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مختلف سوالات پر مشتمل سوالنامہ جای کردیا جس میں ان سے مبینہ دھاندلی کے الزامات کے حوالے سے شواہد اور گواہ طلب کئے گئے ہیں جب کہ کمیشن کا اب اجلاس 29 اپریل کو ہوگا۔
جوڈیشل کمیشن کا اجلاس چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ میں ہوا جس میں حکمران جماعت کی جانب سے وکیل شاہد حامد، تحریک انصاف کی جانب سے عبد الحفیظ پیرزادہ بطور وکیل اور الیکشن کمشین کی جانب سے سلمان اکرم راجا کمیشن کے روبرو پیش ہوئے، اجلاس کے دوران چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ بعض جماعتوں نے ٹرم آف ریفرنس کے تحت اب تک دستاویزات جمع کرائیں اور جو دستاویزات جمع کرائیں گئیں ان میں سے بھی بیشتر عمومی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے دوران بعض ریٹرننگ افسران کو الیکشن کمیشن کی منظوری کے بغیر تبدیل کیا گیا حالانکہ ریٹرننگ افسران کی تبدیلی الیکشن کمیشن کےعلم میں ہونی چاہئے تھی۔
جوڈشل کمیشن کے اجلاس کے دوران (ن) لیگ کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ عوام کی رائے کو تبدیل کرنا آئین سے انحراف کے مترادف ہے، مسلم لیگ (ق) نے درخواست میں کسی ادارے اور شخصیت کو نہیں بخشا یہاں تک کہ عدلیہ کی آزادی پر بھی حملہ کیا گیا۔
سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ فارم 14 اور انتخابی عذرداری سے متعلق ٹریبونل پہلے ہی فیصلے دے چکے ہیں اور ٹریبونل نے جن حلقوں سے متعلق فیصلے سنائے ان کا رکارڈ پیش کیا جاسکتا ہے، اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کے وکیل شاہد حامد اور تحریک انصاف کے وکیل عبد الحفیظ پیرزادہ میں تلخ کلامی بھی ہوئی جسے چیف جسٹس نے مداخلت کرکے ختم کرادیا۔
جوڈیشل کمیشن نے تمام سیاسی جماعتوں کو مختلف سوالوں پر مشتمل سوالنامہ جاری کردیا جس میں سیاسی جماعتوں سے پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ الزام عائد کرتے ہیں کہ انتخابات غیر جانبدار اور شفاف نہیں ہوئے، اگر نہیں تو کیوں اور آپ اپنے الزامات سے متعلق شہادتیں، مواد اور گواہوں کی نشاندہی کریں۔
دوسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا آپ الزام عائد کرتے ہیں 2013 کے انتخابات پر منصوبے کے تحت کوئی اثر انداز ہوا، اگر ایسا ہے تو یہ بتائیں کہ یہ منصوبہ کیا تھا اور کس نے بنایا، کس نے کس طرح عملدرآمد کیا اور آپ کے پاس الزام کے حق میں کیا شواہد ہیں جب کہ تیسرے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ منظم دھاندلی کا مقصد صرف قومی اسمبلی کے انتخابات تھے یا صوبائی اسمبلیوں میں بھی ایسا ہوا۔