اسلام آباد : چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن کا اجلاس ہوا۔ تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیر زادہ نے محبوب انور سے جرح دوبارہ شروع کی۔ اس دوران مسلم لیگ نون کے وکیل شاہد حامد کی مداخلت پر کمیشن نے برہمی کا اظہار کیا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے اضافی بیلٹ پیپرز سے متعلق لکھے گئے خطوط کمیشن میں پیش کیے اور کہا کہ ان دستاویزات سے متعلق الیکشن کمیشن کے وکیل کوئی جواب نہیں دے رہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار دستاویزات کو بنا دیکھے کوئی جواب دینا ممکن نہیں ۔ چیف جسٹس ناصرالملک کی ہدایت پر عبدالحفیظ پیرزادہ نے فہرست فراہم کر دی جس پر محبوب انور نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات ان کی مرتب کردہ نہیں۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے سوال پوچھا پنجاب حکومت نے کس افسر کو انتخابات میں رابطہ اور معاونت کی ذمہ داری دی تھی؟۔ محبوب انور نے کہا کہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری راؤ افتخار کو ذمہ داری سونپی گئی۔ انہیں 9 مئی نہیں 7 مئی 2013 کو راؤ افتخار سے ٹیلی فون کر کے نمبرنگ اور بائینڈنگ کے لیے 100 سے 200 افراد فراہم کرنے کو کہا یہ نہیں کہا تھا کہ پرنٹنگ جاننے والے بندے چاہئیں اور کہاں سے چاہیے۔
7 اور 8 مئی کی درمیانی شام بندے فراہم کر دیئے گئے۔ لاہور سے 78 بندے پرنٹنگ پریس اسلام آباد پہنچے۔ حفیظ پیرزادہ نے سوال کیا بیلٹ پیپرز ریٹرننگ افسران کو کب پہنچے ؟ محبوب انور نے جواب دیا بیلٹ پیپرز مختلف حلقوں کے لیے تھے اور ترسیل سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ بیلٹ پیپرز کی ترسیل کب اور کہاں ہوئی اس کا ریکارڈ موجود ہے۔ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ کی رسیدیں صوبائی الیکشن کمیشن آٖفس میں موجود ہوں گی۔
عبدالحفیظ پیرزادہ نے کمیشن سے استدعا کی کہ صوبائی الیکشن کمیشن سے اسلام میں چھپنے والے بیلٹ پیپرز کی رسیدیں منگوائی جائیں۔ سابق الیکشن کمشنر پنجاب نے بتا یا کہ ان کے پاس فارم 14 اور پندرہ کے غائب ہونے کی کوئی شکایت نہیں آؑئی۔ پیپلزپارٹی کے وکیل اعتزازاحسن نے بھی محبوب انور سے جرح کی اور اپنی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کے حلقے سے متعلق سوال کیے۔
جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ کے تمام سوال ایک حلقے سے متعلق ہیں کمیشن یہاں الیکشن پٹیشن نہیں سن رہا۔ چیف جسٹس ناصرالملک نے استفسار کیا کہ کیا آپ اس لیے پارٹی بنے کہ ایک حلقے پر دلائل دیں؟۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ صرف طریقہ کار واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پنجاب میں کس طرح دھاندلی ہوئی۔ محبوب انور نے کہا الیکشن کمیشن نے 14 مارچ 2014 کو چوتھی بار این اے 124 کے تھیلوں کا معائنہ اپنی نگرانی میں کرنے کو کہا۔
ٹریبونل کے حکم کی تعمیل کر کے رپورٹ الیکشن کمیشن کو ارسال کر دی تھی لیکن یہ یاد نہیں کہ کتنے تھیلوں کے سیل ٹوٹے ہوئے تھے ۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ بیج نمبر 127 سے 244 سیریل تک کی سیل ٹوٹی ہوئی تھیں ۔ پیپلز پارٹی کے وکیل نے کہا کہ ان کے پاس ایسے ریٹرننگ افسران کے سرٹیفکیٹ ہیں جنہوں نے محبوب انور کے ساتھ مل کر دھاندلی کی ۔ اعتزاز احسن نے کمرہ عدالت میں ریٹرننگ افسران کا سرٹیفکیٹ دکھایا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر یہ سرٹیفکیٹ محبوب انور کے جاری کردہ نہیں تو متعلقہ آر او کو بلا لیتے ہیں۔
چیف جسٹس ناصرالملک نے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور الیکشن کمیشن کے وکلا کو اضافی دستاویزات جمع کرانے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ 12 مئی کو ان دستاویزات پر بحث ہو گی ۔ جوڈیشل کمیشن نے محبوب انور سمیت پانچوں پرنٹنگ اداروں کے سربراہوں اور دیگر گواہوں کو بھی پیر کو طلب کیا ہے۔