تحریر : ایم ایم علی
اپنے قیام کے تقریباً تین ماہ بعد 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کیلئے قائم کئے گئے کمیشن نے 237صفحات پر مبنی رپورٹ جاری کردی ،جس میں کمیشن کی جانب سے 2013کے عام انتخابات کو کلین چٹ دے دی ہے۔انکوائری کمیشن نے 2013کے عام انتخابات کو مجموعی طور صاف اورشفاف قرار دیا ہے تاہم کمیشن نے الیکشن کمیشن کی خامیوں اور بے ضابطگیوں کی بھی نشاندہی کی ہے ۔اس رپورٹ کے بعد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جن کے پرزور احتجاج اور اصرار پر یہ کمیشن قائم کیا گیا تھا انہوں نے بھی کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کر کے ایک اچھی روایات قائم کی ہے ۔دوسری طرف حکومت اس رپورٹ کو اپنی کامیابی قرار دے رہی وزیر اعظم میاں نوزشریف نے بھی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس رپورٹ کو سچ کی فتح قرار دیا ، مسلم لیگ (ن) بھی اس رپورٹ کے بعد خوشی سے پھولی نہیں سما رہی قارئین کرام !اگر دیکھا جائے تو انکوائری کمیشن کا فیصلہ ایک تاریخی فیصلہ ہے
کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ہر انتخابات کے بعد دھاندلی کو شور تو مچتا رہا ہے لیکن ملکی تاریخ میں پہلی بار انتخابات میں دھاندلی کا تعین کرنے کیلئے کمیشن قائم کیا گیا ،اور اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی عام کیا گیا ۔اس رپورٹ کے بعد حکومت کی خوشی بنتی بھی ہے کیونکہ پچھلے دو سالوں میں حکومت کو الیکشن 2013 کے نتائج کے حوالے سے اپوزیشن اور بالخصوص تحریک انصاف کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا رہا ہے ۔موجودہ حکومت کو غیر آئینی کہا گیا حکومت کو گرانے کیلئے تحریک چلائی گئی اور منتخب وزیر اعظم سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا گیا، موجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے پاکستان کی تاریخ کا طویل ترین احتجاج کیا گیا۔
لیکن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ نے یہ ثابت کر دیا کہ کہ موجودہ حکومت پر لگائے تمام الزمات بے بنیاد اور مفروضوں پر مبنی تھے ۔جوڈیشل کمیشن کے قائم ہونے کے بعد بعض حلقوں کا خیال تھا کہ عمران خان جوڈیشل کمیشن کے قیام پر اگر اس قدر بضد ہیں تو یقیناان کے پاس الیکشن میں دھاندلیوں کے ٹھوس شوائدموجود ہوں گے لیکن دوسرے حلقے کا خیال تھا کہ عمران خان کے پاس نہ تو کوئی ٹھوس شوائد ہیں اور نہ ہی وہ کوئی ثبوت پیش کر سکیں گے کیونکہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہی نہیں ،جبکہ تحریک انصاف کا دعوی تھا کہ ان کے پاس دھاندلی کے ٹھوس شوائد موجود ہیں جو وہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش کرے گی، لیکن جوڈیشل کمیشن کی ابتدائی سماعتوں میں ہی یہ نظر آنا شروع ہو گیا تھا کے جن ثبوتوں کا دعوی تحریک انصاف کرتی چلی آرہی ہے
وہ محض سیاسی الزمات ہی ہیں اور تو اور عمران خان جن لوگوں کے نام لے کر ان پر الزام تراشی کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کے یہ لوگ بھی دھاندلی میں ملوث ہیں ان میں سے بھی کسی ایک پر بھی کوئی الزام ثابت نہیں کر سکے ۔قارئین کرام !عمران خان جارحانہ سیاست کرنے والے سیاست دان سمجھے جاتے ہیں جب مائیک ان کے ہاتھ میں ہو اور ان کے سامنے کارکنوں کا جم غفیر ہو تو پھر خان صاحب جوش خطابت میں مخالفین کو خوب آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور بڑے ہی وثوق سے اپنے مخالفین پر الزام تراشی کرتے ہیں خان صاحب کی طرف سے اپنے مخالفین پر لگائے الزمات کو سن کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ جیسے وہ لفظ بہ لفظ درست کہہ رہے ہیں اور نہ جانے ان کے پاس ان الزمات کو ثابت کرنے کے کتنے ہی ثبوت موجود ہیں، لیکن جب جوڈیشل کمیشن کے سامنے ثبوت پیش کرنے کا موقع آیا تو ان ہاتھ خالی تھے۔
خان صاحب جوش خطابت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی پر الزام لگانا آسان جب کہ ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے ،شاید وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کے جو الزمات وہ مخالفین پر لگا رہیں اگر کل کسی فورم پر وہ الزمات ثابت کرنا پڑے اور وہ ثابت نہ کر سکے تو اس سے ان کی اور ان کی جماعت کی نہ صرف سبکی ہوگی بلکہ ان کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف بند گلی میں داخل ہوگئی ہے تو بے جا نہ ہوگا اس رپورٹ کے بعد یقناً تحریک انصاف اور خود عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ان کے کارکن جو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے چلے آرہے ہیں یقینا وہ بھی آج یہ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ اگر خان صاحب اور ان کی جماعت کے پاس ثبوت موجود ہی نہ تھے تو پھر اتنا ہنگا مہ کیوں برپا کیا گیا؟ ایسے اور اسطرح کے بہت سے سوالات جن کا سامنا تحریک انصاف اور عمران خان کو کرنا پڑے گا،
اس کے علاوہ پنجاب اور سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بھی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کے اثرات پڑھیں گے۔یار لوگوں کہنا ہے کہ دہشت گردی،بجلی کے بحران ،مہنگائی ،بے روزگاری اور کرپشن جیسے مسائل میں گھری حکومت کو اس رپورٹ نے حیات نو بخشی ہے ،اور اب جب کہ حکومت دو سال سے زائد اپنا پریڈ مکمل کر چکی ہے ایسے میں وہ عمران خان کے حد سے جذباتی پن کی وجہ سے کمزور ہونے کی بجائے مزید مظبوط ہوگئی ہے ۔قارئین کرام! میرے سمیت کئی کالم نگار اور تجزیہ نگا ر اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ دھاندلی کے علاوہ بھی اس ملک کے اندر بہت زیادہ مسائل حل طلب ہیں حکومت اور اپوزیشن کو مل کران عوامی مسائل کی جانب توجہ دینی چاہیے۔
ہماری سیاسی قیادت کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر ملکی مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے لیکن بدقسمتی سے نہ ماضی میں ایسا ہو سکا اور نہ مسقبل میں ایسا ہوتا نظر آرہا ہے ۔وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے خطاب میں یہ کہا تو ضرور ہے کہ جو کچھ ہوا اسے فراموش کررہے ہیں اور کمیشن کی رپورٹ کسی کی ہار جیت نہیں لیکن کیا عملی طور پر بھی ایسا ہی ہوگا کیا واقعہ میاں صاحبان ماضی کو بھول کر آگے کی طرف دیکھیں گے اور کیا واقعتا یہ رپورٹ کسی کی ہار جیت نہیں ہو گی؟ بادی النظر میں دیکھا جائے تو ساری باتیں مذائقہ خیز لگتی ہیں۔
کیونکہ یار لوگوں کا کہنا ہے ہے کہ جس طرح عمران خان میاں صاحبان کو للکارتے رہے ہیں اور ان کی حکومت ختم کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ایسے میں میاں صاحبان کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل ہوگا کہ وہ ماضی کو بھلا کر آگے چل پائیں گے اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ عمران خان اس رپورٹ سے سبق حاصل کرتے ہوئے کیا الزام تراشی کی سیاست ترک کر کے عوامی سیاست کا آغاز کر پائیں گے ؟
یا پھر ایک بار پھر دونوں فریق راویتی سیاست کی طرف لوٹ جائیں گے؟یار لوگوں کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد اس بات سے بالاتر ہو کر کہ اس فیصلے سے کو ن جیتا کون ہارا ،حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر ملک کے حل طلب مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
تحریر : ایم ایم علی