سر ونسٹن چرچل کا قول کا ہے کہ اقتدار کی عظمت سے احتساب کی ہیبت جڑی ہوتی ہے،مگر شاید مسند اقتدار پر فائز حکمران اس بات سے بے نیاز ہوکر اقتدار کی گہرائیوں میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ارباب و اختیار کے بارے میں کسی نے درست فرمایا ہے کہ جب وہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہوتا ہے تو وہ طاقت کے نشے میں ایسا کھو جاتا ہے کہ اسے ارد گرد کچھ نظر نہیں آتا۔ہمیشہ آئین کی حکمرانی اور چیف ایگزیکٹو کی بالادستی پر زور دیا ہے لیکن جب چیف ایگزیکٹو بھی عوام پر من پسند فیصلے مسلط کرے تو اس پر بھی کڑی تنقید ہونی چاہئے۔سندھ کے نئے گورنر جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کی تعیناتی کو دیکھ کر مجھے رہ رہ کر سابق گورنر جنرل ملک غلام محمد یاد آرہے تھے۔کیونکہ ملک غلام محمد بھی اسی گورنر ہاؤس میں چار برس رہے تھے جس میں آج جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی قیام کریں گے۔کیونکہ ماضی میں کراچی کا گورنر ہاؤس ہی گورنر جنرل ہاؤس ہوا کرتا تھا اور بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بھی بطور گورنر جنرل اسی میں رہائش پذیر رہے ہیں۔بہرحال جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کا موازنہ ملک غلام محمد سے اس لئے کیا ہے کہ نئے گورنرکی حالت دیکھ کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس او ر اخبارات میںدلچسپ تبصرے کئے جارہے ہیں مگر اس گورنر ہاؤس نے تو وہ وقت بھی دیکھا ہے جب گورنر جنرل ملک غلام محمد فالج کے سبب معاملا ت حکومت سے مکمل بے نیاز ہوگئے تھے اورا سٹاف نیم مفلوج گورنر جنرل سے دستاویزات پر دستخط کرایا کرتا تھا۔وہ تو بھلا ہو اسکندر مرزا کا جنہوں نے گورنر جنرل صاحب کو زبردستی چھٹی پر بھیج کر قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا۔
وزیراعظم نوازشریف نے جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کو گورنر سندھ مقرر کیا تو وزیراعظم نوازشریف کی طرح اس خاکسار کو بھی علم نہیں تھا کہ گزشتہ تین سالوں میں صدیقی صاحب اس قدر علیل ہوچکے ہیں۔اطلاعات ہیں کہ نئے گورنر کے نام کے اعلان کے بعد وزیراعظم کے نوٹس میں آیا کہ سعید الزماں صدیقی اس وقت انتہائی علیل ہیں مگر تب تک فیصلہ ہوچکا تھا۔انتہائی تکلیف دہ بات ہے کہ ایک صوبے میں وفاق اپنا نمائندہ مقرر کررہا ہوتا ہے اور وفاق کی علامت سمجھے جانے والے وزیراعظم اپنے نمائندے کی تعیناتی سے قبل مشاورتی ملاقات بھی نہیں کرتے اور ارد گرد کے مشیران کی ہی بات پر اعتماد کرکے گورنر جیسی حساس ذمہ داری سونپ دی جاتی ہے۔کیا آج کوئی حکومتی مشیریہ ذمہ داری لے گا کہ اس نے کیسے وزیراعظم کو گمراہ کن مشورہ دیا؟کیا صدر مملکت ممنون حسین صاحب سمیت مسلم لیگ ن کی کراچی قیادت میں سے کوئی بھی شخص جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی کی خرابی صحت سے واقف نہیں تھا؟۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عدالتی معاملات کے حوالے سے سعید الزماں صدیقی کی خدمات لازوال ہیں مگر اس میں سندھ کے عوام کا تو کوئی قصور نہیں ہے۔
دیکھا جائے تو جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی صاحب کا وزیراعظم نوازشریف سے کافی پرانا تعلق ہے۔90کی دہائی میں سپریم کورٹ کے جس بنچ نے غلام اسحاق خان کے فیصلے کے خلاف نوازشریف حکومت کو بحال کیا تھا تو جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اس بنچ کا حصہ تھے۔پھر جب وزیراعظم نوازشریف کا چیف جسٹس (ر) سجاد علی شاہ سے تنازع ہوا تومعاملات مزید گمبھیر ہوگئے۔آج ایک بین الاقوامی اشاعتی ادارے نے اسی کشیدگی کے تناظر میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی گوہرایوب کی کتابـ”اقتدارکی غلام گردشوں کی جھلکیاں”کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ گوہر ایوب کو5نومبر1997کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک اجلاس میں بلایا گیا۔جس میں غور کرنا تھا کہ چیف جسٹس(ر) سجاد علی شاہ کو کس طرح قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے روبرو لایا جاسکتا ہے۔جس پر گوہر ایوب نے رائے دی کہ پارلیمانی قوانین اس پر خاموش ہیں۔گوہر ایوب مزید لکھتے ہیں کہ اجلاس کے بعد وزیراعظم نے انہیں گاڑی میں بٹھالیا اور پوچھا کہ “گوہر صاحب کوئی طریقہ بتائیں کہ چیف جسٹس کو ایک رات کے لئے جیل میں رکھا جاسکے،میں یہ بات سن کر مبہوت ہوگیا اور کہا کہ ایسا کبھی سوچئے گا بھی نہیںـ”۔عین ممکن ہے گوہر ایوب کی کتاب میں جو کچھ لکھا گیا ہے،حقائق اس کے برعکس ہوں ۔مگر ان کی کتاب میں یہ واقعہ آج بھی موجود ہے۔
اسی صورتحال میں چیف جسٹس سپریم کورٹ سجاد علی شاہ نے نوازشریف حکومت کی تیرہویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیتے ہوئے صدر مملکت کا اٹھاون ٹو بی کا اختیار بحال کیا تھا۔مگراگلے ہی لمحے سپریم کورٹ کے دوسرے بنچ نے اپنے ہی چیف جسٹس کا حکم معطل کردیا۔جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی اس دس رکنی بنچ کی سربراہی کررہے تھے۔یہ سب وہ حقائق ہیں،جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔
وہ وقت بھی دیکھا زمانے کی نگاہوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی ہے
مگر تصویر کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کے لئے جمہوریت کو مضبوط کیا۔تاریخ نے وہ منظر بھی دیکھا جب جسٹس(ر) سعید الزماں صدیقی وزیراعظم نوازشریف کے دور میں چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے او ر پھر فوجی آمر پرویز مشرف سے انہوں نے پی سی او کے تحت حلف لینے سے انکار کرتے ہوئے گھر جانے کو ترجیح دی۔ گورنر سندھ کی تعیناتی میں وزیراعظم نوازشریف کی ذات کا مثبت پہلو بھی سامنے آیا ہے کہ وہ کبھی اپنے محسنوں کو بھولتے نہیں ہیں۔لیکن اگر سعید الزماں صدیقی کی جمہوری حکومتوں کو مضبوط کرنے کے حوالے سے عدالتی خدمات لازوال تھیں تو ان کی صحت اور حالت کو دیکھ کر ان سے کہیں اورمزید بہتر فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔اگر حکمران اپنے پرانے دوستوں کو نوازنا چاہتے ہیں تو حکومت میں بہت سی ایسی پوزیشنز موجود ہیں ۔جن پر فائز ہوکر سرکاری گھر اور سرکاری پروٹوکول دیاجاسکتا ہے۔مگر خدارا اہم ترین عہدوں پر ایسی تقرریاں مناسب نہیں ہیں۔معاملہ صرف گورنر سندھ کی تعیناتی کا نہیں ہے بلکہ ابھی کچھ روز قبل وزیر مملکت برائے اطلاعات کے معاملے کو ہی اٹھا لیں۔وزیر اطلاعات کسی بھی حکومت کا چیف ا سپوک پرسن (ترجمان) ہوتا ہے۔ایک ایسا شخص جس نے ہر معاملے پر وزیراعظم اور حکومت کا بھرپور دفاع کرنا ہوتا ہے۔ایک طرف آپ نے پرویز رشید جیسے زیرک اور دانا شخص کو یہ ذمہ داری سونپی ہوئی تھی۔جس نے بلاشبہ گزشتہ تین سالوں میں اپنی حکومت کی پالیسیوں کا بھرپور دفاع کیا اور اب صورتحال سب کے سامنے ہے۔اگر کوئی فرد میڈیا سیل میں بہتر پرفارم کررہا ہے اور آپ اسے نوازنا بھی چاہتے ہیں تو کم از کم وہ کلیدی ذمہ داریاں تو نہ دیں ۔جس کو چلانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔اہم عہدوں پر ایسے افراد کا چناؤ مسلم لیگ ن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے کافی ہے۔
بشکریہ جنگ