جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 7 اپریل سے 9 اپریل 2017 تک تین روزہ سیاسی میلے کا انعقاد صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں کیا،اس سیاسی میلے کو جمعیت علمائے اسلام کے صد سالہ یوم تاسیس پر’ ’تین روزہ عالمی اجتماع’’ کا نام دیا گیا۔ اس اجتماع میں نائب امام خانہ کعبہ الشیخ صالح بن محمد ابراہیم آل طالب اور سعودی وزیرمذہبی امورشیخ صالح بن عبدالعزیز نے بھی شرکت کی ہے۔ اس تین روزہ عالمی اجتماع کے کیا سیاسی مقاصد تھے اس پر ایک علیدہ مضمون لکھنے کی ضرورت ہے۔ اجتماع سے کس کو کیا سیاسی فائدئے ہوئے یہ تو اجتماع ختم ہونے کے بعد ہی معلوم ہونا تھا، لیکن اس سیاسی میلے یا عالمی اجتماع کے شروع ہونے سے قبل ہی جےیو آئی ف کی بلی تھیلے سے باہر نکل آئی۔ سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جنرل سیکرٹری مولانا عبدالغفورحیدری نے چھ اپریل کو پشاورپریس کلب میں اپنی پریس کانفرنس کے دوران طالبان دہشتگردوں کو اپنی جماعت میں شمولیت کی دعوت دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ ”ہم طالبان کو جمعیت علمائے اسلام (ف) میں شمولیت کی دعوت دیتے ہیں اور ہماری جماعت میں شامل ہوکر وہ پرامن سیاسی جدوجہد کی مدد سے اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں”۔
دہشتگرد تنظیم طالبان کے سیاسی مقاصد کیا ہیں، یہ تو جمعیت علمائے اسلام (ف) والے ہی بہترجانتے ہونگے ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ مولانا عبدالغفورحیدری جن طالبان دہشتگردوں کےہمدردبنے ہوئے ہیں، ان کے سہولت کار بھی ہیں اور اب ان کو اپنی سیاسی جماعت میں شامل کرنا چاہتے وہ اب تک 70 ہزار سے زیادہ بے گناہ پاکستانیوں کو مار چکے ہیں۔ انسانی جانوں کے علاوہ ان دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں سال 2016 تک پاکستان مجموعی طور پر 118ارب ڈالرکانقصان اٹھاچکا ہے جو شاید پاکستان کے غیرملکی قرضوں سے بھی زیادہ ہیں، مالی سال 2016۔2015کےدوران دہشتگردی سے ہونےو الے نقصانات کا خسارہ 5ارب 56کروڑ ڈالرتھا۔ طالبان دہشتگردوں کا کردار یہ رہا کہ سال 2014 میں 29 جنوری سے 15 جون تک یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت سے مذاکرات کے ساتھ ساتھ دہشتگردی بھی کررہے تھے، ان کے اخلاقی دیوالیہ پن کا یہ حال ہے کہ29 جنوری سے 15 جون 2014 تک دہشتگردی کے 20 واقعات ہوئے جن میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 195 افراد جاں بحق ہوئے۔ 15 جون 2014 کو افواج پاکستان نے طالبان دہشتگردوں کے خلاف آپریشن’’ضرب عضب‘‘ کا آغاز کیا جس نے دہشتگردی کو اس حد تک ختم کردیا کہ سال 2016 میں دہشتگردی کے واقعات 11 سال کی کم سطح پر رہے، 2009 میں دہشتگردی کے 2586 واقعات ہوئے تھے جبکہ2016 میں کمی کے بعددہشتگردی کے 441 واقعات ہوئے ہیں‘‘۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ماضی کے بارئے میں تھوڑا سا بھی سیاسی شعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ جماعت ہمیشہ سے طالبان کی ہمدرد رہی ہے،اسکےرہنمامولانافضل الرحمان کے بارئے میں ساری دینا جانتی ہے کہ انہوں نے 2013 میں امریکی ڈرون حملے سے مرنے والے حکیم محسود کی ہلاکت پراس کو شہید کہا تھا، حکیم محسود ہزاروں انسانوں کا قاتل اورطالبان دہشتگردوں کا سربراہ تھا۔ مولانا فضل الرحمان نےکہا تھاکہ “امریکہ کے ہاتھوں مرنے والاکتا بھی شہید ہوگا”۔مولانا فضل الرحمان مفتی نہیں ہیں لیکن دہشتگرد تنظیم طالبان سے ان کو ہمیشہ انسیت رہی ہے اس لیے ایک کتے کو بلکہ ایک درندئے کو شہید کہہ ڈالا۔کتے کو شہید کہنے کا فائدہ مولانا کو2013کے انتخابات میں پورا پورا ملا جب طالبان دہشتگردوں نےعوامی نیشنل پارٹی کو انتخابات سے باہر رکھنے کےلیے اس کے جلسوں میں مسلسل جان لیوا دھماکے کیے اور اس کو مجبور ہوکر اپنی انتخابی سرگرمیاں ترک کرنا پڑیں۔ مولانا عبدالغفورحیدری نے شاید نائب امام کعبہ اور سعودی وزیر کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان دہشتگردوں کو اپنی جماعت میں شامل ہونے کی دعوت دئے ڈالی۔
سول سوسائٹی کے معروف تجزیہ نگاروں فرازنہ باری، پروفیسر ڈاکڑ امان میمن، فاروق طارق اور ڈاکٹر توصیف احمد نے معروف ویب سائٹ ’’ڈی ڈبلیو‘‘ کے زریعے اس پیش کش پر سوالات بھی اٹھائے ہیں اور تجزیے بھی کیے ہیں۔فرازنہ باری جو ایک سماجی کارکن بھی ہیں انہوں نے اس پیش کش پر اپنا رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیش کش انتہائی قابل مذمت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ قاتل کو کہیں کہ وہ مقتول کے گھرانے کا حصہ بن جائے۔ آپ قومی دھارے میں سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو لاتے ہیں، جن کا تعلق سماج کی نچلی پرتوں سے ہوتا ہے اور جن کے ساتھ سماجی و سیاسی طور پر ناانصافیاں ہوتی ہیں، جیساکہ بلوچ عسکریت پسند۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسرڈاکٹر امان میمن کا خیال ہے کہ جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے والے مسئلے کو مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔مذہبی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے فاروق طارق کہتے ہیں کہ میرے خیال میں جے یو آئی (ایف اور سمیع الحق) طالبان کے سیاسی دھڑے ہیں اور اب وہ اُن دہشتگردوں کوچھپنے کا راستہ فراہم کررہے ہیں جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ ایسےگروپوں کو قومی دھارے میں لانے کے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ پوری دنیا آپ کے خلاف ہو جائے گی۔ یہ ممکن نہیں ہوگا کہ آپ پوری دنیا کی نظروں میں دھول جھونکیں اور یہ کہیں کہ یہ سیاسی پارٹیا ں ہیں اور ان کو عوام کی حمایت حاصل ہے۔
مولانا عبدالغفور حیدری کے بقول پچھلے دس سال سے دہشتگردی سے منسلک لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا جارہا ہے اور انتہا پسندی کے خاتمے کی جدوجہد کی جا رہی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے جو ہماری مقدس کتاب قران شریف میں موجود ہے کہ ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کاقتل ہے‘‘، تو زرا سوچیں کہ جنہوں نے ستر ہزار بے گناہ انسانوں کو قتل کیا ، کیا وہ قابل معافی ہیں، کیا انکو قومی دھارئے میں شریک ہونے کی اجازت دی جائے۔میرا خیال ہے کہ اب عام لوگوں کی سمجھ میں بھی آجائے گا کہ کیوں مولانا فضل الرحمان فوجی عدالتوں کی سب سے زیادہ مخالفت کررہے تھے۔ کیا انسانیت کے یہ قاتل انسان کہلانے کے لائق ہیں، جواب یقیناً آپ جانتے ہونگے۔ مولانا عبدالغفورحیدری کو گزشتہ فروری 2017 میں امریکی سفارت خانےنے امریکہ کی ایک کانفرنس میں شرکت کےلیے ویزا دینے سے انکار کردیا تھا ۔ اگرچہ مولانا نے تو امریکی سفارت خانے کے انکار کے بارئے میں فرمایا تھا کہ ’انہیں نہیں معلوم کہ امریکی سفارت خانے نے انکو ویزا دینے سےکیوں انکار کیا ہے‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے جو مولانا بھی جانتے ہیں کہ امریکی سفارت کار جانتے ہیں کہ مولانا نہ صرف طالبان دہشتگردوں کےحامی ہیں بلکہ وہ دہشتگردوں کے سہولت کار بھی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ مولانا عبدالغفورحیدری نے طالبان دہشتگردوں کو جو پیش کش اب کی ہے وہ 2013 کے انتخابات سے قبل کیوں نہیں کی ، وہ اس لیے کہ اس وقت پاکستان میں دہشتگردوں کا راج تھا لیکن 2016 میں پاک فوج ان پر کافی حد تک قابو پاچکی ہے اور اگر کچھ عرصہ یہ ہی صورتحال رہی تو وزیر اعظم نواز شریف جو ابھی یہ کہتے ہیں کہ طالبان دہشتگردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے یہ کہہ رہے ہونگے کہ ہم پاکستانیوں نے دہشتگردوں کو معذور بنادیا ہے، لیکن اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت دہشتگردوں کو قومی دھارئے میں شامل ہونے دیتی ہے تو وہ اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارے گی۔ صرف انفرادی طور پران نوجوانوں کو جو کسی حقیقی مجبوری کےتحت دہشتگردوں کا ساتھ دئے رہے تھے اور اُن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے نہیں ہیں قومی دھارے میں شریک ہونے کی اجازت دینی چاہیے۔
ریاست پاکستان کی مخالفت کرنے والے اور دہشتگردوں کے ساتھی آج سیاسی طور پر اپنے آپ کو اسقدر طاقتور سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کھلے عام دہشتگردوں کو قومی دھارئے میں شامل ہونے کی از خود دعوت دے رہے ہیں، ضروری ہے کہ وزیراعظم نواز شریف سرکاری طور پر دہشتگردوں کو دی گئی پیش کش کو رد کریں اور مولانا فضل الرحمان سے اپنے سیاسی اتحاد پرنظرثانی کریں، جمعیت علمائے اسلام (ف)کے تمام لوگوں سے سرکاری عہدئے واپس لیں اورمولانا عبدالغفورحیدری کو سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین شپ سے فوری طور پر علیدہ کریں۔